Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

خونی رشتے (part 4)


میں راجہ کی بھابھی اور اس گھر کی سب سے بڑی بہو صوفیہ ہوں ۔۔۔کہنے کو تو خوشحال ہنسی خوشی رہنے والی۔۔ہر چیز میرے ایک حکم پر موجود ہوتی ہے ۔۔۔۔جتنا چاہوں خرچ کروں کوئی پوچھنے والا
نہیں۔۔مگر جو ایک چیز
صرف میری ہونی تھی ۔۔۔وہی میری نہیں تھیں ۔۔یعنی میرا شوہر شہریار۔۔۔۔۔شادی کی پہلی ہی رات انہوں نے میرا گھونگھٹ اٹھائے ہوئے کہ دیا تھا کہ تم میری محبت نہیں ۔۔۔میں کسی اور سے محبت
کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا یہ میرا مجبوری کا فیصلہ ہے۔۔۔۔ان کے الفاظ میرا بھرم ،میرا غرور توڑنے کے لئے کافی تھے ۔۔۔ اس سے پہلے بھی مجھے اپنے حسن پر ناز نہیں تھا مگر ایسے صاف انکار
نے میری نسوانیت کو بری طرح سےتوڑ ڈالا تھا ۔۔۔۔۔اس کے بعد میں بجھ سے گئی تھی ، ہنسنا مسکرانا تو جیسے بھول گئی تھی ۔۔۔۔راتیں دن کیسے گذرتے مجھے پتا بھی نہیں چلتا ۔۔۔۔امی کے کہنے پر کبھی تیار ہو
جاتی مگر اپنے کمرے میں آتے ہی کپڑے تبدیل کر لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔تائی امی ( راحیلہ ) بھی مجھے دیکھ کر بجھ سی جاتی تھیں ۔۔۔مگریہ فیصلہ دونوں بھائیوں یعنی میرے ابو اور میرے تایا جان کاتھا ۔۔۔۔اور
انہوں نے اپنی گہری بھائی بندی کو ہمیشہ کے لئے مستقل کرنے کا سوچا تھا ۔۔شادی کے 3 دن بعدہی شہریار اپنی تعلیم کے لئے شہر چلے گئے جہاں ان کا پیار ان کے ساتھ دینے کے لئے موجود تھا ۔۔۔۔۔تائی
امی کو پتا چل چکا تھا کہ انہوں نے اب تک مجھے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دن ایسے ہی گزر رہے تھے ۔۔۔۔شادی کو چھ مہینے گزر چکے تھے ۔۔اور ان چھ مہینوں میں وہ صرف دو مرتبہ ہی گھر آئے تھے
۔۔۔۔اور اس پر بھی مجھے صوفے پر سلاتے اور خود بیڈ پر آرام سے سوتے تھے ۔۔۔۔ میری پہلی تفریح میری دونندیں مناہل اور ربیعہ، جو میری کزن بھی تھی۔۔۔۔۔۔وہی مجھےہنسانے کی ناکام کوشش
کرتی رہتیں تھیں ۔۔۔۔انہیں بھی ان سب باتوں کاپتا تھا ۔۔وہ اکثر کہتی رہتی تھی کہ ایک دن شہریار بھیا کو آپ سے بہت سارا پیار ہو گا ۔۔۔۔ آپ اتنی خوبصورت جو ہیں ۔۔بالکل کسی یونانی شہزادی کی
طرح ۔۔۔۔۔ایک نازک سیپی کی طرح ۔بس ایک مرتبہ انہیں شہر سے اپنی پڑھائی مکمل کر کے آنے دیں ۔ پھر تو آپ کے پیار میں ضرور گریں گے۔میں ان کی بچگانہ باتوں پر بے اختیار مسکرا اٹھتی تھیں
۔۔۔۔۔ہمارا روزانہ کا معمول تھا کہ رات دیر تک میں انہیں کے کمرے میں رہا کرتی اور جب وہ نیند میں ڈوبنے لگتی تو اپنے کمرے میں آ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔
میری دوسری تفریح اپنی امی کے پاس بیٹھ کر ابا اور ان کے بچپن کی البم دیکھنا تھی ۔۔۔اور اپنی امی سے ان کے بچپن کے سارے واقعات سننا تھی ۔۔۔جس میں بہت ساری مستیا ں تھیں ۔۔۔شرارتیں
تھیں اور قہقہے ہی قہقہے تھے ۔۔۔۔۔۔ہمارے داد ا ابو کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھیں ۔۔۔بڑے بیٹے راحیل یعنی تایا ابو کے دو لڑکے تھے جن میں سے ایک میرے شوہرشہریار اور ایک دیوررضوان
تھےجنہیں پیار سے راجہ کہتے تھے ۔۔۔اور چھوٹے بیٹےنبیل سے ایک ہی اولاد یعنی میں صوفیہ ہی تھی ۔۔پھپھو کی دو بیٹیاں تھیں راحیلہ اور انیلہ ۔۔۔۔بڑی بیٹی راحیلہ سے تایاابو کی شادی ہوئی ۔اور چھوٹی
بیٹی انیلہ ا پنے والدین کے ساتھ جرمنی شفٹ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔جبکہ میری امی نازیہ دادا ابو کے قریبی دوست کی بیٹی تھیں جن کا گھر بھی ہمارے خاندانی گھر سے ملا ہوا تھا ۔۔۔اوریہ سب ساری شرارتوں
میں شامل رہتے تھے ۔۔۔امی بھی اسکول سے آتے ہی اس گھر میں آ جاتیں تھیں ۔۔کھانا کھانا اورسب کھیل کود ساتھ میں ہی کرتی تھیں ۔۔۔۔۔دادا سے سب ڈانٹ بھی ایک ساتھ کھاتے تھے اور خوب
ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے ۔۔۔۔ہمارے ابا جان شروع سے ہی ہنس مکھ تھے ، جبکہ تایا ابو بڑے اور زمہ دار طبیعت کے تھے ۔۔خاموش مزاج اور کم بولنے والے ۔۔۔۔اور تائی امی(راحیلہ)
جو کہ بعد میں میری ساس بنی وہ بہت زندہ دل اور ہر وقت موج میلا کرنے والی تھیں ۔۔۔۔۔ابا جان اور تائی اماں میں جانے کب آنکھ مچولی شروع ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسر ے کو دل بیٹھے ۔۔۔۔اس
طرح ان کی محبت پروان چڑھ رہیں تھی ۔۔کہ شادی کی عمر قریب آتی گئی اور دادا جان نے وہی فیصلہ کیا جو بالکل عجیب تھا ۔۔۔تایا ابو اور تائی امی کی عمر ایک جیسی تھی ، اس لئے ان کی شادی طے کر دی جبکہ ابا
جان جو کے 3 سال چھوٹے تھے ۔۔ان کی شادی اپنے دوست کے بیٹے یعنی میر ی امی سے طے کی ۔۔ابا جان فورا تایا ابو کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ شادی سے انکار کریں کیونکہ وہ تائی امی کوچاہتے تھے مگر
تایا ابو نے کہا کہ وہ دادا کا بھرم نہیں توڑنا چاہتے ہیں ۔۔ اس طرح یہ شادیاں ہو گئی ۔۔۔۔تایا ابو راحیل اور تائی اماں راحیلہ کو نیچے کا پورشن دیا گیا تھا ۔۔۔۔اور میری امی نازیہ کو اوپر کا پورشن ۔۔۔۔جہاں
پھر بعد میں شہریار اور میری شادی ہوئی اورمیں بھی اوپر ہی شفٹ ہوئی ۔۔۔۔۔میٹرک تک میں ، راجہ ا ور شہریار اکھٹے ہی پلے بڑھے تھے ۔۔۔۔۔ شہریار حد سے زیادہ سنجیدہ تھا ۔۔۔۔اور راجہ شوخ تھا
۔۔۔شرارتیں اور مستیاں کرتا رہتا تھا اور اسی طرح سے پورے گھر میں ایک رونق رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔میری شادی ہوئی تو راجہ اس وقت میٹرک پاس کر چکا تھا ۔۔۔ تایا ابو نے حسب معمول شہریار اور
میری شادی کم عمری میں ہی کر دی تھی ۔۔۔۔۔ میڑک کے بعدراجہ بھی آگے پڑھنے کے لئے شہر چلا گیا ۔۔۔اور گھر میں سب ویسے ہی چلتا رہا ۔۔۔ابا کو روزانہ ناشتے کے بعد کھیتوں پر جانا ہوتا تھا ۔۔۔جبکہ
تایا ابو شہر میں ہی دکانیں سنمبھالتے تھے ۔۔۔۔ ناشتہ امی بناتی تھیں ۔۔۔۔۔دوپہر کاکھانا میں بناتی تھی ۔ اور رات کا کھانا میری نندیں مناہل اور ربیعہ بناتی تھیں ۔۔۔۔بس یہی ہماری روٹین تھی
۔۔۔۔۔شادی کے پانچ مہینے بعدجب شہریار پہلی مرتبہ گھر آئے تو تایاابو نےتائی امی کے کہنے پر شہریار سے کہاکہ ہمیں اس گھر میں بچے چاہئے ۔۔۔۔ کچھ گھر میں رونق ہونی چاہئے ۔۔۔۔شہریار نے اپنے ابا
جان کی بات پر آمین کہی ۔۔۔۔اور رات کو سہاگ رات منانے میرے پاس آ گئے ۔۔سہاگ رات تھی یا عذاب کی رات تھی ۔۔۔۔انہیں بس اپنے ابا کی خواہش پوری کرنی تھی ۔۔۔میری کیا پرواہ کرتے
۔۔۔۔۔میں صوفے پر حسب معمول سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔کہ ایک ہاتھ میری چوتڑوں سے نیچے آیا اور ایک ہاتھ میرے کمر کے نیچے سے ۔اور میں ہوا میں اٹھتی چلی گئی ۔۔۔گڑیا جیسی جو تھی ۔۔میری آنکھ
کھلی تو وہ مجھے اٹھا کر بیڈ پر لے کر جا رہے تھے ۔۔۔بیڈ پر جا کر انہوں نے مجھے لٹا دیا ، انہوں نے اپنے پورے کپڑے پہلے ہی اتار دئیے تھے ۔۔۔۔۔میرا دوپٹہ پہلے ہی صوفے پر رہ چکا تھا ۔۔۔شہریار نے
میرے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا اور میں اپنی مور جیسی حسین گردن اٹھائے ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔جہاں صر ف ایک فرض کو پورا کرنا تھا ۔۔۔کوئی محبت کوئی چاہت نظر نہیں آ رہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کی کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ انہوں نے میری قمیض اتارنی چاہی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا اٹھ کر ان کا کام آسان کیا اور ہاتھ اوپر کر دئیے ۔۔۔میری چاندنی کی چوڑیوں کی کھنکناہٹ سی
گونج گئی ۔۔۔قمیض اترتے ہیں ان کی نظر میری مخروطی چٹانوں پر پڑی جو بڑی شان سے سر اٹھائے کھڑی تھی ۔۔۔۔کسی اپنے کے چھونے کے انتظار میں تھی ۔۔۔۔۔۔شہریار نے دونوں ہاتھوں سے انہیں
تھاما اور بری طرح رگیدنے لگے ۔۔۔۔۔شاید دودھ نکالنے لگے تھے ۔۔۔۔۔میری سسکیاں نکلنا شروع ہو چکی تھی ۔۔آہ ۔۔۔افف شہریار ۔۔آہ۔۔۔۔میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔۔۔اور چہرہ
شدت جذبات سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میرےممے سخت ہونا شروع ہو گئے تھے ۔۔میری سرخ نپل اور زیادہ لال ہو چکے تھے ۔۔۔۔شہریار نے اب ان پر اپنا منہ رکھ دیا اوردودھ پینے کی
کوسشش کرنے لگے ۔۔۔۔۔کبھی ایک ممے پر ان کے دانت گڑتے اور دوسرا مما ان کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوتا ۔۔۔اور ددسرا مما ان کے منہ میں ہوتا اور پہلے والا مما ان کے ہاتھوں کے دباؤ کو برداشت کر رہا
ہوتا ۔۔۔میری سسکیاں اب آہوں میں تبدیل ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔میری چوت بھی گیلی ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پورے بدن میں کرنٹ دوڑتا جا رہا ہے ۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ پورے بدن سے
خون اکھٹا ہو کر چوت میں اکھٹا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب شہریار کا ایک ہاتھ میرے پیٹ سے گزرتا ہوا میری شلوار میں داخل ہو چکا تھا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی ایک انگلی میری چوت میں داخل
ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔میں ایک دم سے اوپر کو اچھلی تھی اور ایک زور دار آہ نکلی تھی۔۔۔۔۔۔ شہر یار نے وہی انگلی میرے منہ میں ڈال دی اور مجھے چوسنے کو کہا ۔۔۔۔۔۔جب انگلی اچھے سے گیلی
ہو گئی تو دوبارہ سے وہ میری چوت میں داخل کرنے لگے۔۔۔۔۔۔میری چوت کی سلطنت میں پہلی بار کوئی باہر کا مہمان داخل ہو رہا تھا ۔۔۔۔تو یقینا اسے بھی مشکل کا سامنا کرنے پڑنا چاہئے تھا ۔۔۔۔میں بار
بار اپنی چوت کو اٹھاتی اور ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر شہریار اپنے پورے وزن سے میر ی ٹانگوں پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔اسی اثنا ء میں میری نظر اس کے کیلے کی طرف پڑ چکی تھی ۔۔۔۔لا ل سرخ
۔۔۔گول سی ٹوپی لئے وہ کسی سانپ کی طرح پھن اٹھا ئے کھڑا تھا ۔۔۔میں نے ایک نظر شہریار کی انگلی کی طرف ڈالی جوکہ اس لن کی موٹائی کا چوتھا حصہ تھی ۔۔۔اور چوت میں کتنی مشکل سے داخل ہو رہی
تھی ۔۔۔۔۔جب ایک انگلی نے میری آہیں نکال دی تھی تو یہ موٹا سات انچ کاسانپ میرا کیا حال کرنے والا تھا ۔۔۔۔شہریار نے اپنی پوری انگلی میری چوت میں داخل کر دی تھی اور اب اسے تیزی سے
آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔میں تڑپ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔اور تیزی سے اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہ کہاں قابو آنے والا تھا ۔۔۔۔میری تکلیف زدہ آہیں پورے کمرے میں گونج رہیں تھی
۔۔۔۔آہستہ آہستہ میری چوت نے شہریار کی انگلی کو جگہ دینی شروع کر دی تھی ۔۔۔۔۔ میری چوت سے بہتا ہو پانی بھی اسے آسان بنا رہا تھا ۔۔۔۔ اچانک ہی میری ایک چیخ نکلی اورمیں اچھل پڑی
۔۔۔نیچے دیکھا تو شہر یار نے اب اپنی دو انگلیاں داخل کر دی تھیں ۔۔۔۔میری گرم گرم آہیں جو بڑی مشکل سے تھمی تھی اب دوبارہ گونجنے لگی تھی ۔۔۔۔اف ۔۔ آہ ۔۔شہریا ر آرام سے ۔۔۔۔۔کچھ ہی
دیر گزری تھی کہ میرے پورے بدن کا خون چوت کی طرف روانہ ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔میری آہیں اور تیز ابھرنے لگی تھیں ۔۔۔۔۔اور میں تیزی سے شہریار کی انگلیوں پر اپنی چوت مار رہی تھی ۔۔۔اور
ایک زوردار آہ کے ساتھ میں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ شہریا ر نے اپنی دونوں انگلیاں باہر نکالی تو وہ میرے آرگزم سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔شہریار نے وہی انگلی میرے منہ میں ڈالی اور چوسنے کا کہنے لگے
۔۔۔اورمیں بھی سوچے سمجھے بغیر چوسنے لگی ۔۔۔۔۔مجھےکیا پتا تھا کہ اب اس کے بعد کچھ اور بھی چوسنا تھا ۔۔۔۔شہریار نےاپنی انگلی صاف ہوتے ہیں مجھے اٹھا کر بٹھا دیا ۔۔۔۔۔میں بیڈ پر بیٹھی حیرت سے
اب اگلے مرحلے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔شہریار نے اپنا ایک ہاتھ میرے سر کےپیچھے رکھا اورتیزی سے مجھے اپنے لن پر جھکا دیا ۔۔۔شہریار نے ایک جھٹکے میں وہ سات انچ لمبا لن میرے منہ ڈالنے کی
کوشش کی ۔۔۔۔۔جو سیدھا میرے حلق سے ٹکرایا اور مجھے کھانسی آنے لگی ۔۔۔اس نے دوبارہ اسے باہر نکالا اور ایک مرتبہ پھر اندر گھسا یا ۔۔۔۔اور کہااسے چوسو ۔۔۔۔۔۔میں چوستی جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔اور وہ لن سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے ۔۔۔اس کے نیچے کی رگیں مجھے اپنی زبان پر محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ قریب دس منٹ چوسنے کے بعد شہریار نے اسے میرے منہ سےنکالا اور میرے
دونوں ٹانگوں کھول کر ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اس کا لن میرے تھوک سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر وہ چوت کو دیکھتا رہا اور پھر اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گیا اور ویزلین کی ڈبی اٹھا کر لے آیا
۔۔۔اور کافی ساری ویزلین اپنی لن کی ٹوپی پر لگائی اور کچھ میری چوت کے لبوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں بھی تیار ہو رہی تھی ۔۔۔اک ایسے درد کے لئے جو مجھے ہر حال میں برداشت کر نا ہی تھا
۔۔۔۔۔۔شہریار نے میری ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھا لی تھیں جو کہ اس کے بازووں کے نیچے سے اس کی بیک پر جا رہیں تھی ۔۔۔۔شہریار نے ایک مرتبہ مجھے دیکھا اور کہا ۔۔۔صوفیہ درد ہو گا ۔۔۔اسے
برداشت کرنا ۔۔۔۔یہ کہ کر اس نے لن کی ٹوپ میری چوت کے لبوں پر رگڑی ۔۔۔۔مستی کی ایک لہر میرے بدن پر لہرائی اور کچھ دیر تک تک شہریار ایسا ہی کرتا رہا ۔۔اور پھر اچانک اس نے اپنی ٹوپی
اندر داخل کر دی ۔۔۔۔تکلیف کی ایک پور ی لہر میری چوت میں داخل ہوئی ۔۔۔اور ایسے لگا کہ جیسے میری چوت چیرنے والی ہو۔۔۔۔میں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر شہریار نے برق رفتاری سے میرے
دونوں سنگترں کو پکڑ کر نیچے کی طرف کھینچا اور ۔۔۔اب میں درد برداشت نہیں کر پائی ۔۔ایک چوت کا درد کیا کم تھا کہ اس نے پور ے مموں کو کھینچ کر مجھے روکا تھا ۔۔۔ میں نے چیخنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا
کہ شہریار نے اپنا وہی ہاتھ ایک بار پھر منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار ہو کر اس کا ہاتھ چوسنے لگی ۔۔۔میرے دونوں ہاتھ میرے مموں کا مساج کر رہے تھے کہ ان کا درد کچھ کم ہو ۔۔۔۔۔۔شہریار
نے کچھ دیر اور ٹہرنے کے بعد تھوڑ ا دباؤ بڑھایا اور ایک انچ لن اور اندر گھسا دیا ۔۔۔۔میری چوت یقینا چیر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کے لب بری طرح پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔۔ شہریار کچھ دیرایسے ہی ساکت
رہا تھا ۔۔۔میں نے اپنے مموں سے ہاتھ ہٹا کر اس کے بازو پر رکھے تو وہ دوبارہ دباؤ ڈالنے کے لئے تیار ہو چکاتھا ۔۔۔۔ایک اور زور دار تکلیف کی لہر میری چوت میں گونجی اور ایک انچ اور لن اندرداخل ہو چکا
تھا ۔۔۔۔۔۔اب شاید پردہ بکار ت کی رکاوٹ آچکی تھی ۔۔۔۔۔شہر یار آگے کو جھکتے ہوئے میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا تھا ۔۔۔۔میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔۔اس نے میرے منہ کو اپنے لبوں
سے بند کرتے ہوئے ایک دھکا اورلگایا اور منہ بند ہونے کے باوجود میری چیخ کمرے میں گونج چکی تھی ۔۔۔۔آہ شہریار میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔میری چوت پھٹ گئی ہے ۔۔۔۔اسے باہر نکالو ۔۔۔۔میں مر
جاؤں گی ۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چاقو میں چوت میں مارا گیا ہو ۔۔۔میں بری طریقے سے تڑپ رہی تھی ۔۔۔اور شہریار میرے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھا ۔۔۔ قریب دس منٹ تک شہریار
میرے ہونٹ چوستا رہا ۔۔۔۔اور اس کے بعد میرا درد کم ہو چکا تھا اور اب یقینا میری چوت کو دھکے چاہئے تھے ۔۔۔شہریار نےلن باہر کھینچا اور ٹوپی اندر ہی رکھ کر ایک دھکا مارا ۔۔۔اوئی ماں میں مر گئی
۔۔۔۔میری چوت میں دوبارہ سے جلن شروع ہو چکی تھی ۔۔۔اب شہریار آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں میری چوت اسے سمبھال چکی تھی ۔۔میں نے آہستہ سے اس کی کمر
پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔وہ میرا اشارہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔اور تھوڑا تیزی سے آگے پیچھے کرنے لگا۔۔۔خون کی ایک پتلی تہہ اس کے لن کے گرد تھی ۔۔۔۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیاں اب بڑھتی جارہی اور مجھے
کائنات کا سب سے زیادہ مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار آؤں ۔۔۔۔آؤں۔۔۔۔ آؤں کی آواز نکل رہیں تھی ۔۔ہر لڑکی کے موننگ کرنے کا اندازہ الگ ہوتا ہے ۔۔۔کچھ صرف سسکیاں
بھرتی ہیں اور کچھ آوازیں نکالتی ہیں ۔۔۔۔میری منہ سے آؤں ۔۔۔۔آؤں کی آوازیں نکل رہیں تھی ۔۔۔جو شاید شہر یار کو اور دعوت دے رہیں تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد ہی میں فارغ ہونے کے قریب ہو گئی
۔۔۔شہر یار نے اپنے اسپیڈ اور بڑھا دی تھی ۔۔۔اس کا لن اب صرف دو انچ ہی باقی تھا ۔۔۔باقی پانچ انچ میں لے چکی تھی ۔۔۔۔۔میری آہ ۔۔۔۔ آہ سے پورا کمرہ گونج رہا تھا ۔۔اور ایک زبردست
وائبریشن کے ساتھ میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔اور میں بے اختیار ڈھیلی ہوتی گئی ۔۔۔۔۔میں نے شہریار کو اپنے سینے سے لگا دیا اور وہ بھی میرے بچے کی طرح مجھ سے لپٹتا گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد اس
نے اپنا لن باہر نکالا ۔۔۔اوراٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔اس کا لن ابھی تک کھڑا ہی تھا ۔۔۔شاید اس کی مرضی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔شہریار نے فریج سے ایک جوس کا گلاس نکالا اور میرے لبوں کو لگا دیا
۔۔۔۔مجھے کچھ اطمینان ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔شہریار نے کچھ دیر بعد مجھے اٹھایا اورباتھ روم لے گیا ۔۔۔باتھنگ ٹب میں مجھے لٹا کر گرم پانی کا نل کھول دیا اور ٹب میں آ کر میرے ساتھ ہی لیٹ
گیا۔۔۔۔۔ساتھ ہی شاور کا رخ بھی ہماری طرف ہی تھا ۔۔۔میں بے اختیار ہو کر اس سے لپٹ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے ہونٹوں کو چوم رہیں تھی ۔ ۔۔۔۔۔اس نے گرم پانی سے میرے پورے بد ن کو دھویا
۔۔۔۔۔میری چوت اب کچھ سکون میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی طرح خود کو دھونے کا بعد اس نے مجھے اٹھایا ۔۔۔۔میں خود سے چلنے کے قابل نہیں تھی اب تک ۔۔۔ مجھے صوفے بٹھا کر کر بیڈ شیٹ
تبدیل کی اور ہم پھر دوبارہ بیڈ پر آگئے تھے ۔۔۔۔شہریار کا لن ابھی تک تنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔شہریار میرے پہلو میں لیٹا میرے ہونٹوں سے رس کشید کر رہا تھا ۔۔۔۔۔میرا ہاتھ رینگتا ہوا اسے کے لن تک جا پہنچا
اور میں نے پہلی بار اس موٹے سانپ کو چھوا جو کچھ دیر پہلے میری اور میری چوت کی چیخیں نکال چکا تھا ۔۔۔۔۔میں اسے آہستہ آگے پیچھے ہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔شہریار اب میرے ہونٹ چوسنے کا ساتھ ساتھ
اپنے ہاتھوں سے میرے ممے بھی مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔مموں کا پورا حصہ لال سرخ ہوکر پورے جسم سے الگ نظر آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں میری چوت پھر گیلی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔اور میں
دوبارہ تیار ہونے لگی ۔۔۔۔میرے ہاتھ اب تیزی سے شہریار کے لن پر گھوم رہے تھے ۔۔۔۔۔۔وہ بھی جلدی سے اٹھااورمجھے گھوڑی بنا بتانے لگا ۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں اور گھٹنے کے سہارے جھکی ہوئی تھی
کہ ۔۔۔۔۔۔پیچھے سے شہریار کا موٹا تازہ لن سنسناتا ہوں میری چوت کے اندر گھس گیا ۔۔۔۔۔میری ایک چیخ نکلی اور میں آگے کی طرف گرنے لگی ۔۔۔۔شہریار نے جلدی سے میری کمر پکڑ لی ۔۔۔۔اور
دوبارہ سے ایک اور جھٹکا مارا ۔۔۔اب کی بار اس کا پورا سات انچ کا لن میری چوت میں گھس کر تباہی پھیلا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں دوبارہ آگے کی طرف گری اور میرا سر تکیہ پر جا لگا ۔۔۔۔شہریار نے اسی پر
بس نہیں کی بلکہ میرے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر پورا وزن ڈال دیا اور ۔۔۔۔۔۔پور ی تیز سے دھکے مارنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد کی ایک تیز لہر دوبارہ سے پیدا ہو رہی تھی
۔۔۔۔اور میرے منہ سے بے اختیار آؤں۔۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔آؤں کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔۔شہریار اب مجھے کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔میرا اٹھنے کی کوشش کرنا بیکار ہی تھا
۔۔۔۔اس کے ہر دھکے کے ساتھ میں بیڈ کے اندر گھستی اور میرا سر تکیہ میں جا دبتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے چوتڑوں پر بیٹھے ہوئے لن کو تیزی سے دھکے دے رہاتھا اور آگے کی طرف جھکتے ہوئے اس
کا پورا وزن میرے کندھوں پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 7 منٹ تک اس طرح طوفانی جھٹکے مارتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔وہ رکا اور مجھے سیدھا کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔اور پھر بغیر موقع دئیے میری ایک ٹانگ پر بیٹھتے
ہوئے دوسری ٹانگ بالکل کمری کی چھت کی طرف اٹھا دی ۔۔۔۔۔میرے منہ سے ایک کراہ نکلی ۔۔۔۔۔اور پھر اس کا سات انچی سانپ میری چوت میں گھس چکا تھا ۔۔۔۔۔میری تکلیف دہ آہیں پورے
کمرے میں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔۔مگر شہریار کے کان شاید بند ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔۔میری آنکھوں سے آنسو بہ رہےتھے ۔۔۔۔۔۔یہ درد بے شک قابل برداشت تھا ۔۔۔۔مگر اصل درد شہریار کا رویہ
دے رہا تھا ۔۔۔۔اس کی ساری محبت اڑ چکی تھی ۔۔ اس نے میری ٹانگ سے وزن ہٹا دیا اور دوسری ٹانگ کو نیچے کرتے ہوئیں دائیں بائیں پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنی پوری طاقت سے ٹانگوں کو دائیں بائیں دبارہا
تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور دوبارہ ایک ہی جھٹکے دوبارہ لن اندر گھسا دیا ۔۔۔۔میں اوپر کی طرف اچھلی ۔۔۔۔میں بری طرح سے تڑپ رہی تھی ۔۔اور میری آہیں میرے ہی کانوں میں واپس آ رہی تھی
۔۔۔۔۔اور وہ اس سارے منظر کو انجوائے کر رہاتھا ۔۔۔۔میں دو مرتبہ فارغ ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ اب تک میری بجانے میں لگا ہواتھا ۔۔۔۔۔اور پھر اس نے تیزی سے ٹانگیں
واپس موڑیں اور مجھے اپنے اوپر سوار کرنے لگا ۔۔۔۔۔میں ابھی اس کے لن کو دیکھ کر اندر ڈالنے کاسوچ ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ شہریار نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اس کے لن کی ٹوپی میری بچہ دانی
سے جا ٹکرائی ۔۔۔۔۔۔۔میں ایک جھٹکے سے شہریار کے سینے پر گری ۔۔۔۔۔اور اس نے اسی طرح سے میری کمر کے گرد ہاتھ باندھ لیے اور نیچے سے دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیا
ں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔۔۔اور میرے دونوں ممے اس کے سینے پھر گھسٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز ہوتی اسپیڈ بتا رہی تھی کہ وہ بھی فارغ ہونے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے کچھ دھکے تھے تو ایسے تھے کہ میں بالکل ہوا میں اچھل جاتی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر وہ ایک زبردست چنگھاڑ کے ساتھ فارغ ہونے لگا ۔۔۔۔اس کی منی کا فوار میری چوت کا اندر پھوٹ
چکا تھا ۔۔۔۔اور اسی کے ساتھ ہی میں بھی ایک مرتبہ پھر چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔میں بے دم ہو کراس کے اوپر گر گئی ۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر میں سانس بحال کرنے کے بعد شہریار اٹھا اور مجھے دوبارہ صوفے
پر پٹخ دیا اور میرے کپڑے میرے اور پھینک کر کہنے لگا ۔۔۔کہ میں نےاپنا فرض پورا کیا اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں نےا پنے کپڑے اٹھا ئے اور خاموشی سے باتھ روم چلی گئ اور
چینج کر کے صوفے پرلیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں سے اب تک آنسو بہ رہے تھے ۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں شہریار سو چکا تھا ۔۔۔۔اور میں اسی طرح کروٹیں بندلتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔
صبح اٹھی تو پتا چلا کہ شہریار شہر جا چکا تھا ۔۔۔امی کو میری حالت سے اندازہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔انہوں نے مجھے ناشتہ میرے کمرے میں دیا اور پین کلر دے کر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ گذری تھی میری سہاگ رات ۔۔۔۔۔۔جس میں محبت اور چاہت کے علاوہ سب کچھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو دنوں کے بعد میں نیچے اترنے کے قابل ہوئی اور پہلے کی طرح اپنے معمول میں لگ گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دن ایسے ہی گذ ر رہے تھے کہ ایک دن میں مناہل اور ربیعہ کے کمرے سے رات گئے باتیں کرتے کرتے اپنے کمرے میں آرہی تھی ۔۔۔۔۔تائی اماں راحیلہ یعنی میری ساس کے کمرے
کے سامنے گزرتے ہوئے کچھ ناموس سی آوازی سنائی دیں اور میں ٹھٹک کر رک گئی ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں ان کے دروازے سے آنکھ لگا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments