Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

خونی رشتے (part 3)


میں رات کو سوتے ہوئے بھی عجیب طرح کے خواب دیکھ رہا تھا ۔۔بھابھی میرے آگے بھاگ رہیں تھیں ۔۔اور میں انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اور کبھی میں ان کے آگے بھاگ رہا ہوں اوروہ میرے پیچھے ۔۔۔میں مڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مڑ نہیں پاتا ۔۔اس طرح کے اوٹ پٹانگ خواب دیکھ کر صبح اٹھا تو بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی ۔۔۔تمام گھر والےناشتہ کر چکے تھے ۔۔۔۔۔ میں نہا کر باہر نکلا تو امی میرے کمرے میں آئی ہوئی تھیں اور بڑی فکر مندی سے میراحال چال پوچھ رہیں تھیں ۔۔میں نے بتایا کہ سب خیریت ہے ۔۔بس رات دیر سے نیند آئی ۔۔۔امی نے بتایا کہ تمہارے بھیا کو شہر سے تمہارے ابو کی کال آئی تھی اور وہ جلدی میں وہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔میں بھی کچھ پریشان ہو گیا ۔۔امی سے کہاکہ آپ ناشتہ بھجوائیں ۔۔۔اور ابو کا کال ملا کر بات کرنے لگا ۔۔ابو نے بتایا کہ شہر میں ایک نیا اسکول خرید رہاہوں تو اس کے لئے پیسے چاہئے تھے ۔۔اس لئے پیسوں اور لکھت پڑھت کے لئے تمہارے بھیا کو بلوایا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ ابا اگر میری ضرورت ہو تو بتائیں میں آ جا تا ہوں۔۔۔ابا مسکرا کر کہنے لگے نہیں بیٹا ۔۔۔ تم زرا گاؤں کی دیسی چیزیں دل بھر کر کھا ؤ ۔۔۔کیوں کہ پھر چھٹیوں ختم ہو جائیں گی ۔۔میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ابا جان ۔۔آپ خوش رہیں ۔۔۔۔ فوں بند کر میں رات والے واقعے کی طرف سوچنے لگا ۔۔۔۔جب دروازے کے باہرکوئی سایہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔میں ڈرا کہ کہیں چاچا نہ اٹھے ہوں اور انہوں نے نہ دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔اتنے میں چاچی مسکراتی ہوئی ناشتہ اٹھائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔۔میرا راجہ اٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ چل اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواؤں ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل راجہ کی خواہش تو پوری کی نہیں ہے ۔۔۔چاچی تھوڑی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی کہ راجہ کے لئے جان بھی حاضر ہے مگر تھوڑا آہستہ ہاتھ رکھو ۔۔۔۔۔ میں نے ناشتہ شروع کیا تو چاچی بھی بڑی گہری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ رات واقعی قیامت کی تھی ۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہیں ہوں کہ تیری بیوی کا کیا حال ہو گا ۔۔۔میں نے کہا وہی حال ہو گا جو رات کو آپ کو ہوا تھا ۔۔۔۔چاچی کی باتوں سے نہیں لگ رہا تھا کہ رات چاچا باہر تھے ۔۔۔اگر چاچا باہر ہوتے تو وہ لازما چاچی سے ضرور پوچھتے ۔۔۔۔۔چاچا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھےایسی چھوٹ ہوتی ۔۔۔۔۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی بول اٹھی آج رات چاچا باہر کھیتوں میں رہے گیں تو میں جلد ہی آ جاؤں گی ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا ۔۔۔ناشتے کے بعد میں باہر نکل آیا اور نیچے جا کر ڈائننگ ٹیبل پر چائے پینے لگا ۔۔۔میری دونوں بہنیں مجھ سے بالترتیب ایک ایک سال چھوٹی تھیں ۔۔۔ایک نویں کا امتحان دے رہی تھی اور ایک دسویں کا ۔۔۔۔نیچے گیا تو ان کے قہقہے سن کر ان میں گم ہو گیا ۔۔۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے ان میں جھڑپیں ہوتی رہتیں تھیں جس سے پورے گھر میں رونق رہتی تھی ۔۔۔۔میں بہنوں کے ساتھ کچھ دیر ہنس کھیلتا رہا اور پھر باہر کھیتوں کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔ وہاں چاچا حسب معمول کام میں مصروف تھے۔۔۔ آج رات کھیتوں میں پانی کی باری تھی جس کی وجہ سے ٹیوب ویل ابھی سے چل رہے تھے ۔۔۔چاچا نے مجھے آواز دی اور کہاکہ بیٹا شہر جا ٹیوب ویل میں نہانا تو مس کیا ہو گا ۔۔میں نے کہا جی چچا جان بالکل ۔۔۔۔ اور پھر ان کے اشارے پراپنے کپڑےاتارے اور انڈر وئیر پہنے ٹیوب ویل میں اتر گیا ۔۔۔میرا کسرتی بدن دیکھ کر چاچا بھی حیران رہ گئے تھے کیوں کے میں نے اتنی محنت کا کام نہیں کیا تھا مگر بدن بتا رہا کہ بہت محنت کش کا ہے ۔۔۔خوبصورتی سے تنا ہوں ۔۔ایک ایک مسلز ابھرے ہوئے ، پیٹ نہ ہونے کے برابر اور چوڑا سینا ۔۔۔ میں نے پوچھا چاچا کیا ہوا ۔۔چاچا کہنے لگے کہ بڑا خوبصورت جسم ہے تیرا اگر میں ایک اور بیٹی ہوتی تو تجھ سے شادی کر دیتا ۔۔۔۔اچانک مجھے چاچی کی بات یاد آ گئی اور میں کہ اٹھا کہ چاچا پہلی بیٹی کی شادی پربھیا کی مرضی تو پوچھ لیتے ۔۔۔چاچا ایک دم گم سم ہو گئے اور کہنے لگا بیٹا ۔۔۔ہم بھائیوں میں بڑی محبت تھی اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ باہر شادی کریں ۔۔۔۔اسی لئے یہ قدم اٹھایا تھا ۔۔مگر افسوس کے تیرے بھائی کو پسند نہیں آیا ۔۔۔۔میں باتیں کرتے ہوئے نہا بھی رہا تھا ۔۔چاچا کی بات سن کر میں بھی افسوس محسوس کرنے لگا اور چاچا سے کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں اب یہ میری ذمہ داری ہے ، میں بھائی کو خود مناؤں گا۔۔۔اور اس گھر میں دوبارہ خوشیوں کی بہار آئی گی ۔۔۔میں نہا کر باہر آیا تو ہمارے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ بہت سا گنے کا خالص رس جو کہ گڑ بنانے کا کام آتا تھاایک بالٹی بھر کے لے آئے ۔۔میں نے بالٹی منہ سے لگائی اور خالی کر دی ۔۔۔ اس طرح میں شام تک وہیں مصروف رکھا اوررات کا کھانا کھانے گھر واپس آ گیا ۔۔۔۔ ڈائننگ ٹیبل پر سب بیٹھے تھے ۔۔بھابھی حسب معمول چپ چاپ تھیں ۔۔۔ان کو گوری کلائیوں میں گولڈن چوڑیوں کی کھن کھن میرے دل کی دھڑکن کو بھی تیز کر رہیں تھیں ۔۔۔۔ان کے چہرے کی اداسی انہیں اور بھی حسین بنا رہیں تھیں۔۔۔۔دل کر رہا تھا کہ ان کے چہرے کو ہاتھوں میں بھر کر چوم لوں ۔۔۔۔ کھانا کھا کر کچھ میٹھا کھایا اور بہنوں کے ساتھ کچھ دیر ٹی وی پر ڈرامے دیکھے ۔۔پھر امی کو شب بخیر کہ کر اوپر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ اوپرپہنچا تو تھوڑی ہی دیر میں چاچی بھی دودھ کا گرم گلاس لے کر اوپر پہنچ گئیں ۔۔۔کہنے لگیں یہ لو دلہے راجہ گرم دودھ پیو ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل رات تک صرف راجہ تھا اور آج دلہا بھی ہو گیا ۔۔۔کہنے لگیں کہ آج ہماری سہاگ رات ہے دلہے راجے ۔۔۔۔میں مسکرا کر دودھ کا گلاس منہ سے لگا لیا ۔۔۔ دودھ بادام اور خشک میوہ جات سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں بھی مزے میں آ گیا تھا ۔۔چاچی نے کہا کہ تھوڑا آرام کرو۔۔میں کچھ دیر میں آوں گی جب تک سب سو جائیں گے ۔۔۔میں نے کہ جیسے سرکار کی مرضی ۔۔۔۔۔
میں بستر پر جا کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔اور سوچتے سوچتے نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔قریبا دو گھنٹے میں مجھے لگا کہ کوئی میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہا ہے ۔۔۔۔آنکھ کھولی تو چاچی اپنی نائٹی میں دونوں ہاتھوں میں تیل لگائے مالش کر رہیں تھی ۔۔میں اٹھنے لگا تو چاچی کہنی لگی ، لیٹے رہو دلہے راجہ ۔۔۔۔۔آج کے بعد آپ کی مالش میں ہی کیا کروں گی ۔۔۔میں چپ چاپ ان کو دیکھتا رہا ۔۔۔آج چاچی نے نے نائٹ بلب آن کیا ہوا اور اس کی بلیو روشنی میں چاچی کا پورا بدن چاندی کی طرح چمک رہا تھا ۔۔۔چاچی میرے سائیڈ پر بیٹھ کر مالش کر رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے کہا کہ چاچی نائٹی اتار کر اوپر ہی آ جائیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی نے مسکرا کر دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور کہ دلہے راجہ خود ہی ہمیں آزاد کردیں ۔۔۔میں نے بھی دیر نہ کی اور چاچی کی نائٹی اتار دی ۔۔چاچی نے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا ۔۔۔نائٹی اتارتے ہی ان کی دودھ کی تھیلیاں میرے سامنے آن گری ہوئیں ۔۔۔سخت تنی ہوئی ۔۔اور دودھ سے بالکل بھری ہوئی لگی رہی ہوئی تھی ۔۔۔۔میرے منہ میں پانی آ گیا ۔۔۔۔بے اختیار چومنے کا دل ہو ا مگر آج چاچی کا ارادہ مجھے ستانے کا لگ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے ہاتھ لگانے نہیں دیا ۔۔۔کہنے لگیں کہ پہلے دلہے راجہ کی مالش کریں گے اس کے بعد کچھ اور ۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنی انڈر وئیر بھی اتار دی ۔۔۔چاچی میرے دائیں بائیں پاؤں رکھ کر اوپر بیٹھ گئیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔۔ان کے اوپر سے نیچے پھرتے ہوئے ہاتھ مجھے بہت الگ مزہ دے رہے تھے اور ان سب سے بڑھ کر ۔۔۔۔۔۔ایک گرم سی آگ تھی جو ان کےہاتھوں کے اندر سے مجھ میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔اور پھر یہ آگ نیچے اتر کر تھانیدار کو جگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی کے دونوں ہاتھ میرے سینے پر تھے اور ان کے خربوزوں کے خوبصورت کلویج مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ دونوں ممے جب ایک خاص انداز سے اوپر کی طرف اٹھتے تومیرے منہ میں پانی آ جا تا ۔۔۔چاچی بھی دیکھ ہی رہی تھیں اور بار بار اپنے سینے کو ہلکا سا باؤنس کر رہیں تھیں ۔۔۔اور پھر وہیں ہوا جو ہونا تھا۔۔۔تھانیدار نے کھڑے ہوتے ہیں چاچی کو ہلا دیا ۔۔۔سیدھا ان کی چوت پر دستک دی اور وہ بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔ان کی تمام بد تمیزیوں کا جواب دینے والا کھڑا ہو چکا تھا ۔چاچی نے اس کا توڑ سوچا اور میرے اورلیٹ گئیں اور اپنے مموں کو میرے سینے پر دبانے لگیں ۔ان کا خیال تھا کہ میرا تھانیدار نیچے کی طرف نکل جائے گا۔اور ان کی چوت کو ٹچ نہیں ہو گا ۔۔مگر میرا تھانیدار بھی اپنامرضی کا مالک تھا وہ چاچی کی چوت کے ساتھ ہی میرے بد ن کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا اور میں تھوڑی سی حرکت دے کر چاچی کی چوت کے منہ پر ایک حرارت دوڑ ا دیتا تھا ۔۔چاچی نےتنگ آ کر کہا اب الٹے ہو جاؤ پیٹھ پر بھی مالش کر دیتی ہوں ۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔میں الٹا ہو کر لیٹ گیا ۔۔۔تھانیدار کو دوبارہ سونے کا اشارہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ بھابھی اب میری چوتڑوں پر بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھوںسے کمر مل رہیں تھی ۔۔۔وہ آگے کو جھک اپنی گرم سانسیں گردن سے نیچے کی طرف پھینکتی ہوئی آتیں اورساتھ ساتھ ہاتھ بھی پھرتیں ۔۔۔۔۔۔ان کی چوت کی لائن مجھے باقاعدہ اپنے چوتڑ پر محسوس ہو رہیں تھیں ۔۔۔کچھ دیرایسا ہی چلاتا رہا اور پھرچاچی پیٹھ پر بھی جھک گئیں اور اپنے سخت اور نرم گرم مموں سے میرا مساج کرنے لگیں ۔۔۔۔۔یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ کسی عورت نے مجھے اس طرح سے ٹچ کیا تھا ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ چاچی اپنی چوت کا منہ بھی میری چوتڑوں پر رگڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اسی سے ہی ان کی آہیں نکل رہیں ۔۔۔اب میری بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اب آپ لیٹ جائیں میں آپ کی مالش کرتا ہوں ۔۔۔۔چاچی میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں اور کہنے لگیں کہ آؤ دلہے راجہ آپ کی دلہن حاضر ہے ۔۔۔۔۔چاچی بیڈ پر سیدھ لیٹ چکی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے کچھ سوچا اور نیچے جا کر مکھن کا کٹورا لے آیا ۔۔۔چاچی حیران ہو کر دیکھ رہیں تھیں کہ یہ کہا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔آخر تھا تو شہری بابو ۔۔۔کچھ نہ کچھ تو نیا کرنے والا تھا ۔۔۔۔ میں نے مکھن لیا اور سیدھا ان کے ہونٹوں پر رکھ دیا ۔۔ اور ساتھ ہی اپنے ہونٹوں بھی ان کے ہونٹوں پر رکھ دئیے ۔۔چاچی یہ کھیل سمجھ چکی تھیں اور انہوں نے جلدی سے مکھن اندر کرنا چاہا مگر یہ کیا مکھن کے بجائے میرے ہونٹ ان کے ہونٹ میں جا چکے تھے اور مکھن میرے منہ میں تھا۔۔۔۔میں نے چاچی کو آنکھ ماری اور کہا کو دوبارہ ٹرائی کریں ۔۔۔اور دوبارہ مکھن کا ایک ٹکڑا ان کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔اب کی بار وہ ہوشیار تھیں اور نتیجہ ۔۔۔۔۔۔ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں میں دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نےبھی کسر نہ چھوڑی اور باہر کو لگا ہو مکھن کا ایک ایک زرہ چوس لیا ۔۔۔چاچی کے نرم نرم ہونٹ اور مکھن میں کوئی فرق نہیں لگ رہا تھا ۔۔اب کی بار ایک پیس چاچی کے ماتھے پر رکھا اور اسے چاٹنے لگا ۔۔۔نیچے سے چاچی کے ہاتھ جذباتی ہو کر مجھےچھونے لگے ہی تھے کہ میں نے منع کر دیا ۔۔۔یہ کہ فاؤل ہے ۔۔آپ نے بھی مجھے ہاتھ لگانے سے منع کیا تھا ۔۔۔۔چاچی بے بسی سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔اور آہیں بھر رہیں تھیں ۔۔۔ اب میں نے ایک پیس ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور ان کا چہرہ تھوڑا سا نیچے جھکا دیا۔۔۔۔مکھن ان کے جسم کی گرم سی پگھلتا ہوں ایک لکیر بناتا ہوا ان کی دودھ کی تھیلیوں کے درمیان جا رکا ۔۔۔بس پھر کیا تھا میں نے بھی اپنی زبان سے مکھن کا تعاقب کیا اور تیزی سے جا لیا اس کو ۔۔۔چاچی کی گرم گرم سسکیا ں شروع ہو چکی تھیں ۔۔۔ان کی ٹانگیں بار بار بھنچ رہیں تھی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔مگر مجھے ہاتھ لگانے کی آزادی انہیں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلا ٹکڑا میں نے ان کے ایک ممے پر رکھا اور پھر زبان اور ہونٹوں کی مدد سے چوسنے اورچاٹنے لگا ۔۔۔چاچی کے ممے بار بار میرے منہ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔مگر اتنا آسان نہیں تھا ۔۔۔میں بھی اپنے ہونٹوں اورچہرے کی مدد سے ان کے ممے کو نیچے سے اوپر کی طرف اٹھا تا ۔۔یہاں تک کہ وہ بالکل اوپر جا کران کے کندھے کے قریب پہنچ جاتے اور پھر ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوئے ایک زبردست سی چکی کاٹتا اور چاچی کے منہ سے بے اختیار سسس نکلتا ۔۔۔۔چاچی کی زبان آزاد تھی اور وہ اس کا بہترین استعمال کررہیں تھیں ۔۔۔ہائے دلہے راجہ ۔۔۔۔۔اف دلہے راجہ ۔۔۔۔۔۔اف میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔ہائے اتنا مزہ ۔۔۔۔میں نے دوسرے ہاتھ میں مکھن لیا اور ان کے دوسرے ممے پر ملنا شروع کر دیا ۔۔۔۔شروع میں وائٹ رنگ دینے کا بعد اب مکھن آہتہ سے پگھل رہا تھا کہ میں بائیں ہاتھ اور منہ کی مدد سے اس پر پل پڑا ۔۔۔وہیں انداز تھا ۔۔نیچے سے ممے کو پکڑ کر اوپر تک لے کے جانا کہ چاچی بھی اس دیکھ لے او ر پھر چاچی کو دیکھتے اور زور سے چوسنا کہ چاچی کی آہیں نکلنا شروع ہو جائیں ۔۔۔۔۔ اس طرح میرے سیدھا ہاتھ ان کے سیدھے ممے کو بھنبور رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کی گولائیوں کو ناپ رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کے دودھ کو بے دردی سے مسل رہا تھا۔۔۔۔۔چاچی اب بری طرح سے مست ہو چکی تھیں ۔۔۔۔ان کی ٹانگیں بھی بار بار میرے گرد لپٹتی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے چھاتیوں سے نیچے کا سفر شروع کیا اور مکھن کا ایک پیس ان کے پیٹ پر رکھا اور پوری فرمانبرداری سے ایک ایک زرہ چاٹ لیا ۔۔۔جیسے جیسے میں نیچے آ رہا تھا ۔۔چاچی کی گرماہٹ بڑھ رھی تھی اور ان کی ٹانگیں حرکت بڑھا رہیں تھیں ۔۔۔میں اب ان کی مخملی چوت پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔اور ایک مکھن کا ٹکڑا اوپر رکھ کی چاچی کی طرف دیکھا ۔۔۔وہ مجھے ہی تک رہیں رہیں ۔۔۔۔ان کو آنے والا مزہ مجھے صاف ان کی آنکھوں میں دکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے ہونٹ ان کی چوت پر رکھ دئے ۔۔چاچی ایک دم تڑپ اٹھیں ۔۔آہ راجہ ۔۔۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔۔میں نے بھی چاٹنا شروع کیا اور پوری چوت اپنے ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔چاچی کی سسکاریا ں اب بڑھتی جا رہیں تھی ۔۔۔۔میں نےمکھن کا ایک پیس اپنی زبان پر رکھا اور زبان ان کی چوت میں داخل کردی ۔۔۔۔چاچی کا دونوں ہاتھ میرے سر پر آئے اور انہوں نے مجھے اپنی چوت پر دبا دیا۔۔۔میں بھی بڑے سلیقے سے اپنی زبان ان کی چوت کے اند ر باہر کر رہا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھ میرے چاچی کی ہاتھوں میں تھے اور وہ باقاعدہ اس پر زور لگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور ۔۔۔۔دائیں اور بائیں سے ان کے گول گول چوتڑ تھام لیے ۔۔۔میں بتا چکا تھا کہ چاچی کا سب سے پرکشش حصہ ان کے چوتڑ ہی تھے ۔۔۔گول گول ۔۔موٹے موٹے اور باہر کی طرف ابھرے ہوئے ۔۔۔۔میرے ہاتھ مکھن سے بھرے تو تھے ہیں ۔۔۔۔میں نے ان کو چوتڑوں کو تیزی سے مسلنا اور بھنبھورنا شروع کر دیا ۔۔۔اب وہ ڈبل مزے میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ان کی چوت پر میرا منہ اپنی من مانیا ں کر رہاتھا اور ان کے گانڈ میرے ہاتھوں میں کسک رہیں تھی ۔۔۔جبکہ ان کے ممے انہیں کے ہاتھو ں میں مسلے جا رہے تھے ۔۔۔میری زبان کی حرکت جاری تھی۔۔۔۔کہ چاچی کی ایک دم چیخ نکلی اور انہوں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ میں واپس اوپرآ کر ان کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔۔۔ان کو کانو ں کو چوسنے لگا ۔۔۔اور اپنے ہاتھوں کو ان کی چھاتیوں کو مسلنے لگا۔۔۔۔ چھاتیاں بالکل مکھن کے آئل میں بھیگی ہوئیں تھیں اور چاچی خود بھی انہیں چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر ایسا نہ ہو پاتا ۔۔۔۔چاچی اب میرے اوپر آنے کا ارادہ باندھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پوری طرح سے ہوشیار ہو چکا تھا ۔۔۔چاچی نے بھی میری نقل کی اور مکھن لے کر میرے لن پر مل دئیے ۔۔۔۔ اور پھر اسے منہ میں لینے کی کوشش کرنےلگی مگر۔۔۔۔۔۔ وہ منہ میں لے لیتی تو میں کہاں کا راجہ تھا ۔۔۔۔۔وہ پوری کوشش کے باوجود صرف ٹوپی ہی اندر لے سکیں ۔۔۔اور اس پر ان کا پورا منہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں بے بسی دکھ رہیں تھی ۔۔۔۔وہ اس پر ہی اپنی زبان ملنے لگیں ۔۔۔۔۔اور باہر نکال کر چاروں طرف سے قلفی کی طرح چاٹنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اب کی بار انہیں کیا سوجھی ۔۔۔دوبارہ سے ناپ لینا کا سوچا ۔۔۔مگر حیرت کی بات تھی کہ میرا ہتھیا ر کل کی نسبت آج زیادہ لمبا لگ رہا تھا ۔۔۔اور موٹا بھی ۔۔۔چاچی دوبارہ سے حیرانگی میں گم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔چاچی دونوں ہاتھوں سے اسے قابو میں کرنے لگی ہوئی تھیں ۔۔۔مگر ہتھیار تھا کہ سنسناتا ہوا یک سانپ ۔۔۔۔۔چاچی نے قریب رکھا ہوا ایک شیشے کا گلاس اٹھا یا اور اس کو لن پرچڑھانے لگی تو بے مشکل لن پر آدھا بھی نہیں آ پایا تھا ۔۔۔۔صرف ٹوپی اور ایک ڈیڑھ انچ گلاس میں کے اندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب دوبارہ سے رونے والی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کا منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔آج تو چاچا بھی نہیں تھے ۔۔۔۔رہیں بھابھی تو میں چاہتا تھا کہ وہ بھی میری آواز سن لیں ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اچھی طرح مکھن مل لیں لن پر ۔۔۔۔۔چاچی نے ایسا ہی کیا اور پھرمیں نے انہیں گھوڑی بنا دیا ۔۔۔ ان کے سرخی مائل بال ان کی کمر پر آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے بال دائیں بائیں کر دئیے اور ان پر جھکتے ہوئے ان کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئے ۔۔۔۔اب چاچی کے آگے جانے کی امید کم تھی ۔۔۔۔کل رات تین انچ تک تو جاچکا تھا ۔۔۔آج بس اس سے آگے کوشش کرنی تھی ۔۔۔۔۔میں نے مکھن کا ایک بڑا سا ٹکڑا لیا اور ان کی چوت میں بھرنے لگا ۔۔۔وہ آہیں بھرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔مگر منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔چاچی بار بار عجیب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ ان کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سےلنڈ کا ٹوپا ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔۔چاچی اب بھی اداس لگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔بس یہی کہ رہی تھیں ۔۔۔۔دلہے راجہ ۔۔۔۔آرام سے کرنا ۔۔۔۔جلد بازی نہ کرنا ۔۔۔۔ابھی آدھی رات پڑی ہے ۔۔۔جلدی نہ کرنا ۔۔۔میں تمہاری ہی ہوں ۔۔۔۔میں بھی انہیں تسلی دے رہا تھا ۔۔۔میں نے لن کا ٹوپا ان کی چوت کی لائن میں پھنسانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہی پچھلی رات والا ہی سین ۔جانے سے انکار ۔۔۔مجھے بھی اب جلدی ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے چوت کی لائن پر رکھتے ہوئے اک ہلکا سے جھٹکا دیا ۔۔۔۔لن کا ٹوپا تو پورا کا پورا سلپ ہو گیا اور چاچی آگے کی طرف گر گئیں اور ۔۔۔۔۔۔انہیں اندازہ ہوا تھا کہ میں نے جھٹکا مارنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔وہ بے اختیار رونے لگ گئی ۔۔۔۔کہنے لگی کہ تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ۔۔میں نے جلد بازی سے منع کیا تھا ۔۔۔۔۔میری چوت پھٹ جائے گی ۔۔۔۔میں نے انہیں کہا کہ رات کو یہاں تک تو لے لیا تھا آپ نے اس لیے میں یہ کیا ۔۔۔اور پھران کو اوپر ہی لیٹ گیا ۔۔۔ان کے گرم گرم چوتڑ مجھ اور بھی گرما رہے تھے ۔۔۔میں ان کی کمر کو چومنے لگا ۔۔۔۔۔اور اسی طرح اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنا لن ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔اب پوری پوزیشن درست تھی ۔۔۔۔۔۔میں پچھلی طرف سے اچھا خاصا دور تھا ان سے ۔۔میرا صرف ٹوپا ہی کی چوت کو ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے آرام آرام سے مستقل زور لگانا شروع کیا ۔۔۔۔چاچی کی۔۔۔آئی ۔۔۔آئی ۔۔افف ۔افف کی آوازیں نکل رہیں تھیں ۔۔۔راجہ آرام سے۔۔۔۔راجہ آرام سے ۔۔۔مکھن چاچی کی چوت کو نرم اور ملائم کر چکا تھا ۔۔۔لن کا ٹوپا اندر داخل ہو چکا تھا ۔اور اب چاچی کی گرما گرم آہیں پورا کمرہ گرم کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔میں نے آہستگی سے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔لن اتنا ٹائٹ تھا کہ آگے دھکیلتے ہوئے چاچی بھی تھوڑا سے آگے کھسک رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور ان کی آوازیں ۔۔۔۔۔افف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔۔افف ۔۔۔آہ ۔۔آہ میں مر گئی۔۔۔راجہ دھیان سے ۔۔۔ میں تین انچ تک اندر گھسا چکا تھا ۔۔۔۔چاچی بار بار دونوں ہاتھ پیچھے کیطرف کر کے اپنے چوتڑوں کو کھولنے کی کوشش کررہیں تھیں ۔۔۔شاید کوئ آسانی ہو جائے ۔۔۔مگریہاں درد تھا ۔۔۔۔۔۔کسک تھی ۔۔۔تڑپ تھی ۔۔۔۔۔۔اور ان سب کے درمیان سے ابھرتا ہوا مزا تھا ۔۔۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی مشین کی اندر بند ہے اور پوری طرح سے جکڑا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس طرح تین انچ کو ہی آگے پیچھے دھکا دیاتا ۔۔۔۔۔لن کسی پسٹن کی طرح اندر گھستا اور وہ اس کی رگڑ کی عجیب سی آواز۔۔۔اور اوپر سے چاچی کی ہائے میں مر گئی کی آواز ۔۔۔۔۔۔میں نے اب آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اورایک انچ اور آگے کی طرف کی گھسایا ۔۔۔چاچی کی دوبارہ سسکیا ں شروع تھیں ۔۔۔۔۔ان کے بس میں ہوتا تو میرے نیچے سے نکل جاتی ۔۔۔۔مگر یہ بھی مشکل تھا۔۔۔۔۔۔ میں دس منٹ تک پھر آگے پیچھے ہلاتا رہا ۔۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ تھانیدار نے اپنی جگہ بنا لی ہے ۔۔اور ایک انچ کا دھکا اور لگا یا ۔۔۔۔۔۔چاچی نے ایک مرتبہ پھر آگے کو زور لگایا اور نکلنے کی کوشش کی مگر یہ ناممکن تھا ۔۔۔چاچی ایک مرتبہ ہاتھ سے نکلتی تو دوبارہ بہت مشکل سے تیار ہوتیں ۔۔۔۔میں نے صرف ٹوپا اندر رکھا اور باقی لن نکال کر ایک مرتبہ پھر جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اور چاچی کی چیخ گونج اٹھی۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔ہائے مجھے بچاؤ۔۔۔میں نے جلدی سےآگے ہو کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور ان کے کانوں کو چوسنے لگا۔۔۔بلاشبہ یہ آواز بھابھی کے کمرےمیں جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔میں چاچی کے سر کو کو چومنے لگا ۔۔۔اور تسلی دی کہ بس تھوڑا ہی رہ گیاہے ۔۔پھر مزہ ہی مزہ ہے ۔۔۔۔۔حالانکہ ابھی تک صرف پانچ انچ ہی اندر تھا ۔۔۔اور آدھے سے کچھ زیادہ باہر تھا۔۔۔۔۔میں اسی پانچ انچ کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آگے پیچھے کرتا رہا ۔۔۔۔چاچی اب مطمئن ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ان کہ چہرے سے ہاتھ ہٹا دیا ۔۔۔۔۔ان کا چہرہ پسینے میں بھگویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور درد کی شدت ان کے چہرے سے ظاہر تھیں ۔۔۔۔۔۔میں پیچھے کو ہٹ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا ۔۔۔۔اور آرام سے آگے پیچھے کو لن ہلا رہا تھا ۔۔۔۔چاچی کی سسکیوں میں اب مزے کا تاثر تھا ۔۔۔۔چاچی پیچھے دیکھتی اور ہلکے سا اٹھ کر اپنے دونوں مموں مسلتی اور پھر آگے لیٹ جاتی ۔۔۔۔۔راجہ آج تو تونے مار ہی ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔اتنا بھی خیال نہیں کرتا میرا ۔۔۔۔میں چاچی پر جھک گیا اوران کو بے اختیار چومنے لگا ۔۔۔۔۔۔
چاچی اب اس پوزیشن سے تھک چکی تھیں ۔۔۔اور میرے لن کی سواری کرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔میں بیڈ پرتکیہ رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔اور چاچی کو اوپر آنے کا کہا ۔۔۔۔چاچی نے دوبارہ سے مکھن لےکر تھانیدار کو نہلا دیا ۔۔۔اور اپنی چوت میں بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔اور میری طرف منہ کر ٹانگیں دونوں طرف رکھ دیں ۔۔۔چاچی گھٹنے کے بل بیٹھ نہیں پارہیں ۔۔۔کیونکہ میرا لن ان کی چوت کے اندرآدھا داخل ہو جاتا تھا ۔۔۔۔اور پھر ہلنا جلنا ان کےلئے ناممکن تھا ۔۔۔۔۔خیر وہ ٹانگوں کے بل بیٹھ کر لن کے ٹوپے کو اوپر چوت رکھ کر زور دینے لگیں ۔۔۔۔اسی اثنا ء میں کمرے کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔بھابھی کا سایہ وہاں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور وہ اپنی ماں کو اپنے دیور سے چدتے ہوئے یقینا دیکھ رہیں ہو گی ۔۔۔۔۔چاچی کی آخری ہائے میں مر گئی کی آواز نے نہ صرف بھابھی کو اٹھایا ۔۔۔۔۔۔بلکہ میرے دروازے تک بھی پہنچا دیا ۔۔۔۔۔میں نے دروازے سے نظر اٹھا ئی تو عجب نظارہ تھا ۔۔۔چاچی ٹوپا اندر لے چکیں تھی ۔۔۔۔ ان کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے اپنے پورے غرور سے تنے ہوئے اور سر اٹھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور مجھے تھامنے کی دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ چاچی ابھی مجھ سے فاصلے پر تھی ۔۔۔جب تک وہ آدھ لن نہیں لیتی میں ان کے ممے نہیں تھام سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور چاچی کا چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔سرخی سے بھرا ہوا ۔۔۔۔آنکھیں شرابیں ۔۔۔۔۔اور دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو کو مسلتی ہوئی ۔۔۔۔۔اپنے دانتوں سے اپنے ہونٹوں کو کاٹتی ہوئیں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔اففف کی آوازیں نکالتی ہوئیں ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چوتڑوں کو تھام لیا اور مسلنے لگا اور آہستہ آہستہ نیچے لانے لگا ۔۔۔۔چاچی کا چہرہ دوبارہ سے پسینے چھوڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ان کی آہیں اور سسکیاں بڑھی رہی تھی۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔راجہ ۔۔۔۔کتنا بڑا ہے تیرا ہتھیار ۔۔۔۔۔۔۔میں مرگئی راجہ ۔۔۔۔۔ہائے راجہ ۔۔۔۔میں ان کے چوتڑوں کو مسلسل بھینچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب آدھے لنڈ اپنی چوت میں لے چکی تھین۔۔۔اور ان کی حرکت بند ۔۔۔۔آنکھیں باہر تھیں ۔۔۔اور بس ساکن حالت میں تھیں ۔۔۔۔۔۔اٹھنے اور دوبارہ بیٹھنے کی ہمت اب ان میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔میں نے انہیں اشارہ کیا کہ میرے اوپر آ جائیں ۔۔۔۔۔وہ بڑی احتیاط سے لن کو نیچے سے پکڑتی ہوئی آرام سے آگے آتی گئیں ۔۔۔ اور اپنے ممے میرے سینے پر رکھتے ہوئے ڈھیر ہو گئیں ۔۔۔۔۔میں نےبھی ان کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا اور نیچے سے ہلکا ہلنا بھی شروع کردیا ۔۔۔ساتھ اپنے ہاتھوں سے چاچی کی گول گول ڈبل روٹیوں کو بھی مسل رہا تھا ۔۔۔چاچی اب یہ تھری ایکشن برداشت نہیں کر پار ہیں تھیں ۔۔۔۔وہ کبھی ہنستی ۔۔۔کبھی چیخ پڑتی تھیں ۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔افف ۔۔۔۔۔ چاچی اب میرے سر کو چوم رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے ہونٹ چوم رہیں تھیں اور میں بھی جوابی کاروائی بخوبی کر رہا تھا ۔۔۔اچانک چاچی نے کہ کہ میں چھوٹنے والی ہوں ۔۔۔تھوڑی رفتار بڑھا دیا ۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔میرا راکٹ ایک دم بوسٹ مار گیا ۔۔۔اور چاچی کی چیخیں پورے فرسٹ فلور پر گونجنے لگی ۔۔۔ہاے میں مرگئی ۔۔۔۔۔اففف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔راجہ میں گئی ۔۔۔۔۔۔میرا پسٹن اپنے آدھے سائز کے مطابق پورا کام دکھار ہا تھا ۔۔۔۔۔چاچی کی درد بھری چیخوں نے یقینا اس کی بیٹی کو بھی گیلا کر دیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ چاچی کی سسکیاں بڑھتی جارہی تھیں اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے چاچی فارغ ہوئیں اور ان کا پانی میں لن پر گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔اور وہ مجھ پر گرتی چلی گئیں ۔۔۔میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔مگر چاچی اب مجھے مزید نہیں جھیل پا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے ہتھیار کو تھام لیا ۔۔۔۔۔اور تیزی سے ہاتھ اوپر نیچے کرنے لگیں ۔۔۔۔۔پانچ منٹ میں ہی میں بھی فارغ ہونے والے تھا ۔۔۔چاچی کو میں نے نہیں بتایا ۔۔۔مگر بے چینی سے انہیں اندازہ ہورہا تھا ۔۔۔۔اور پھر وہی ہوا ایک فوارہ نکلا اور ان کے پورے منہ اور چھاتیوں کو بھگونے لگا۔۔۔۔چاچی نے ایک دم گہرا سانس لیا اور شرارتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی انہیں اپنے اوپر گرا لیا ۔۔۔۔اور ان کے ہونٹوں کو رس پینے لگا ۔۔۔۔۔چاچی گھبرا گئی کہ۔۔۔۔راجہ دوبارہ کرنا ہے کیا ۔۔۔۔۔میں مسکرایا اور کہا نہیں بس آج کے لئے اتنا کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی کے بڑے بڑے ممے پورے میری منی سے بھیگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔میری منی بھی عام لوگوںسے بہت زیادہ نکلتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب دوبارہ سے ہم بیڈ پر ایک دوسرے کیطرف منہ کر لیٹ گئے ۔۔۔ٹائم وہی تھا رات کے چار بج رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی میرے منہ اور چہرے کو چوم رہی تھیں ۔۔۔۔ہمارے درمیاں ایک عجیب سا رشتہ قائم ہو چکا تھا ۔۔۔اعتبار کا ۔۔۔۔محبت کا ۔۔۔۔۔احساس کا ۔۔۔اور ایک دوسرے پر مکمل بھروسے کا ۔۔۔ میں چاچی سے بھابھی کے بارے بات کرنا چاہ رہاتھا ۔۔۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔چاچی نے کہا کہ کہو ۔۔۔۔میں نے کہاکہ آج جب آپ چیخیں تو بھابھی بھی آواز سن کر دروازے پر آگئیں تھیں ۔۔۔اور کافی دیر تک رکیں رہیں تھیں۔۔۔۔۔چاچی کچھ دیر چپ رہیں اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔راجہ ایک بات بتاوں! میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میری بیٹی آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔میری آواز سن کر ۔۔۔۔اور ایک بات اور ۔۔۔جب تمہارے چاچا کبھی کبھار مجھے چودتے تھے ۔۔۔تو بھی یہ آواز سن کر دروازے پر آ جاتی تھی ۔۔۔۔۔اس کا شوہر تو اسے بیوی مانتا ہی نہیں ۔۔۔اور یہ یہی حرکت کر کے خود کو سکون پہنچا تی ہے ۔۔۔یہ سن کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا پلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔

Post a Comment

0 Comments