Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

خونی رشتے (part 12)





چاچی کے کمرے سے کپڑے اٹھا ئے میں سیدھااپنے کمرے میں نکلتا گیا تھا ۔۔آ کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔اور کچھ دیر سانس برابر کرنے کے بعد نہانے چلا گیا ۔۔ واپس آ کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔چاچا نے چاچی کو مناتے ہوئے جو جو وعدے کئے تھے ، انہوں نے چاچی کے موڈ اور انداز پر کافی بہتر اثرات مرتب کئے تھے ، اور ان کی سوچ کے مطابق چاچا باہر کے سب تعلق توڑ چکے ہیں اور اب گھر میں آیا کریں گے ۔۔۔۔اگر یہ سب ہو جاتا تو بہت ہی اچھا تھا ۔۔۔۔دیکھتے ہیں کہ چاچا اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔اور اس کےبعد ثناء میرے خیالوں میں چھن سے آ گئی ۔۔۔مسکراتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پوچھتی ہوئی کہ مجھے یاد کئے بغیر کیسے سو پاؤ گے راجہ ۔۔۔میں کل کا پلان سوچنے لگا کہ امی اور بہنوں کو لے کر خالہ کا چکر ضرور لگا ؤں گا ۔۔۔اور پھر نیند کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔
صبح اٹھا اور نہا دھو کر ناشتے کے لئے نیچے آ گیا ۔۔۔۔ آج کا ناشتہ بھابھی نے بنایا تھا ۔۔۔۔چاچی آرام کے موڈ میں تھیں ۔اورچاچا انہی کے ساتھ اوپر تھے۔۔۔۔میں بھی خاموشی سے بیٹھ گیا ۔ امی اور بہنیں بھی آ چکی تھیں ۔۔۔۔مجھے کل ہی امی نے بتایا تھا کہ مناہل وقار کے ہاں ٹیوشن پڑھنے جا تی رہی تھی ۔۔۔میں نے مناہل اور ربیعہ کو بھی بتا دیا کہ کل میں ثناء کے ہاں گیا تھا وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے ۔۔۔۔امی بول پڑیں کہ آج تم گھر پر ہیں رہنا ، شام میں ہم سب ساتھ میں چلیں گے ۔۔۔میں نے بھی کہا کہ ٹھیک ۔۔۔۔بھابھی مجھے اگنور کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف تھیں ۔۔۔میں امی سے باتیں کرتا تو وہ مجھے دیکھ رہی ہوتیں اور جب میں ان کی طرف دیکھتا تو نظریں دائیں بائیں ایسی گھماتیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو ۔۔میں دل ہی دل میں مسکر ارہا تھا ۔۔۔میں نے بھابھی سے کہا کہ ایک گلاس پانی پکڑائیے گا ۔۔۔پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے وہ حسب معمول دائیں بائیں نظر گھمار رہی تھی ۔۔۔۔میں نے گلاس تھامتے ہوئے ان کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔گلاس چھوڑا تو میں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور گلاس ٹھاہ کرٹیبل پر گر چکا تھا ۔ وہ جلدی سے اٹھ گئیں اور اسفنج لے کر پانی خشک کرنے لگی ، میرے قریب ہی کھڑی تھیں ، میں نے بھی چپل سے پیر نکال کر ان کے پیروں کے اوپر رکھ دئیے ، انہوں نے دوبارہ مجھے چونک کر دیکھا۔ اور پاؤں کو نیچے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔کچھ دیر ایسےہی کرنے لگیں ۔۔۔پھر میں نے پاؤں اٹھا دئے تو وہ کچن کی طرف چل پڑی تھیں ۔۔۔واپس پر وہ مجھے بری طریقے سے گھور رہیں تھیں ناشتہ ختم کر کے میں نیچے ہی بہنوں کو پاس بیٹھ گیا تھا ، ٹی وی آن کر کے ہم کچھ پروگرام دیکھنے لگےکچھ ہی دیر میں بھابھی چائے لے کر آچکیں تھیں ، چائے دے کر ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئیں ، مناہل اور ربیعہ آگے کی طرف تھے ،اور ان کے منہ ٹی وی کی طرف تھے ،، بھابھی کہنے لگیں کہ یہ سب نہیں چلیں گے ، میں نے پوچھا کہ کونسے۔۔۔یہی مجھ پر لائن مارنے والے ، مجھے یہ سب پسند نہیں ہیں ۔۔۔توپھر کونسے کام پسند ہیں ؟ ۔۔۔بھابھی نے نظریں دوبارہ گھما لی ۔۔۔میں نے پوچھا کہ رات کو مزہ آیا تھا دیکھنے میں ؟ وہ غصیلی نگاہوں سےمجھے دیکھنے لگیں اور پاؤں پٹختی ہوئی اپنی چائے لے کر چلی گئیں ۔۔۔۔ میں مناہل اور ربیعہ کی طرف متوجہ ہوا انہیں آوا ز دی تو وہ لپکتی ہوئی آگئیں اور آ کر میرے صوفے کے دائیں بائیں ٹک گئیں ، ۔۔میں پہلے بتا چکا تھا کہ مناہل میڑک کے امتحان اور ربیعہ نہم کے امتحان کے بعد اب فارغ تھیں ، چھٹیوں کے بعد ہی ان کی اگلی کلاسز شروع ہونی تھی ۔۔مناہل دھیمے مزاج کی اور ذمہ دار لڑکی تھی ، اور ربیعہ شوخی اور چنچل سے بھرپور تھی ۔۔۔اکثر غلطیوں پر مناہل اور امی سے ڈانٹ کھاتی رہتی مگر کرتی اپنی مرضی ہی تھی ۔۔۔۔ربیعہ نے اپنے بازو میرےکندھوں کے گرد رکھتے ہوئے بولی ، بھیا آپ شہر جا کر کتنا بدل چکے ہیں ، آپ کو اپنی بہنیں یاد ہی نہیں آتیں ، سارا دن باہر رہتے ہیں اور پھر اوپر اپنے کمرے میں ۔۔ہم کتنا انتظار کرتیں ہیں آپ کےجلدی آنے کا۔۔۔۔۔مگر آپ ہیں کے آتے ہیں نہیں ۔۔۔میں نے کہا کہ اچھا بابا جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب میں ٹائم پر آ جایا کروں گا ۔۔۔اور اس کے بعد ان کے فرمائشی پروگرم شروع تھے ، جس میں ایک عدد شہر لے جا کر شاپنگ تھی ، ایک دن وہاں ان کے ساتھ سی سائیڈ دیکھنی تھی ، انہیں ایک اچھے والا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی چاہئے تھے ۔بہت سارے دھی بڑے اور گول گپے کھانے تھے۔۔اور شہر میں رہنے والی ایک دوست سے ملوانا تھا ، ۔۔۔ابا کے پاس بھی لے کر جانا تھا ۔۔۔اور یہ فرمائشیں جاری ہی تھی کہ میرے موبائل کی بیل بجی ، نمبر دیکھاتو وقار کا تھا۔۔۔میں نے کال ریسیو کی تو کہنے لگا کہ راجہ تو پھر آج اسکول آ رہا ہے نا ۔۔۔میں نے کہا کہ بس آدھے گھنٹے بعد آتاہوں ۔۔فون بند کیا تو ربیعہ منہ بسور کر بیٹھی ہوئی تھی ، پھر سے آگیا آپ کے دوست کا فون ،، اب رات سے پہلے تو آپ نے نظر نہیں آنا ۔۔۔میں اس کے سر کو سہلاتا ہوا بولا ، بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں ، تم تیار رہنا پھر خالہ کے ہاں چلیں گے ۔۔وہ خوش ہو گئی تھی۔۔مناہل ہمیں خاموشی سے دیکھ رہی تھی ، میں نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کچھ چاہئے ، وہ کہنے لگی کہ بھائی آپ بس ٹائم پر جلدی آ جائیے گا ، یہ نہ ہو کہ ہم انتظار کرتے رہیں ۔۔میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف آیا ، ، کمرے میں داخل ہونے کے پہلے بھابھی کے دروازے پر دستک دی اور اپنے کمرے میں آ گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد بھابھی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔۔۔۔اور پھر ایک زوردار آواز کےبند ہو گیا ، ۔۔میں مسکرا کر چینج کرنے لگا۔۔۔اور وقار کے اسکول کی طرف نکل گیا ۔۔۔
اسکول میرا جانا پہچانا تھا، اس کے ہر حصے سے ہماری یادیں وابستہ تھیں ۔۔حد سے زیادہ مستیاں کرنا ۔۔۔ٹیچرز کو تنگ کرنا۔۔۔سب سے زیادہ مارنے والی مس کو کسی سر کی طرف سے لو لیٹر لکھی کر دے آنا ۔۔آفس کا کہ کر اسکول سے باہر نکل جانا ۔۔۔کیمسٹری کی مس کو لیب میں تنگ کر نا ۔۔اور بائیولوجی کی مس کے مینڈک کے جار کھول دینا ۔۔۔میں اسکول میں داخل ہوا تو بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں تھی۔۔آفس میں آیا تو نظارہ ہی دوسرا تھا ، وقار نے کافی اچھا انٹیرئیر سجا یا تھا ۔۔۔۔سامنے کی طرف ایک بڑی ایل سی ڈی لگی ہوئی جس میں اسکو ل کے اندر کے منظر چل رہے تھے ۔ایک طرف صوفہ جس کے سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وقار بیٹھا تھا۔۔وقار سے مل کر میں صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔اور وہ مجھے اسکول میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں بتا نے لگا ۔۔۔جس میں سے ایک اچھے ٹیچرز کو شہر سے بلوا کر یہیں رہائش دینا تھی، انہیں شہر سے دگنی تنخواہیں دینی تھیں ، اور شارٹ سرکٹ کیمرے جس سے وہ تمام ٹیچرز کو مانیٹر کرتا رہتا تھا۔۔میں سب سن رہا تھا ، کچھ دیر میں چائے آ گئی۔۔۔میں نے کہا یہ سب تو ٹھیک ہے مگر سمر کیمپ کا بتاؤ کہ کیاکیا ہےاس میں ۔۔۔۔سمر کیمپ میں سوئمنگ کی کلاسز تھیں ، ساتھ ہی کراٹے کی کلاسز ۔۔۔اسپیچ کمپیٹیشن اور لڑکیوں کے ہینڈی کرافٹ کی کلاسز تھی۔ ساتھ ہی جنرل نالج کے بھی مقابلے تھے ۔۔۔۔میں نے چائے پیتے ہوئے سامنے ایل سی ڈی کی طرف نظر جما دی تھی ۔۔جہاں ایک طرف گراؤنڈ میں کراٹے کی ورزشیں ہو رہی تھیں ۔۔۔ اور باقی مناظر میں ہینڈ کرافٹ اور دوسری کلاسز تھیں ۔۔۔۔اتنے میں وقار نے بیل بجائی اور ماسی سے کہا کہ مس سعدیہ کو بلائیں ۔۔۔۔۔میں نے وقار کی طرف سوالیہ نظروں سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ بھی شہر سے ہی بلوائی تھی سمر کیمپ کے لئےکراٹے کی ٹیچر ہے، کافی غصیلی اور نک چڑھی ہے ۔۔اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔۔۔کسی آرمی والے کی بیٹی ہے اور کافی میڈل بھی جیت چکی ہے ۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں وہ آفس میں آ چکی تھی ۔۔۔آرمی ٹراؤز میں بلیک ٹی شرٹ پہنے ، سر پر پی کیپ جمائے ہوئے ۔ایتھیلیٹ باڈی تھی ۔۔سر آپ نے بلایا ۔۔۔۔وقار نے ایک پیپر اس کی طرف بڑھا دیا ہے ، جی یہ مقابلوں کا نوٹس ہے ۔۔۔آج آپ لوگوں کا پہلا مقابلہ ہے ، دو بجے تک گاڑی آ جائے گی لینے کے لئے ۔۔۔آپ لوگ تیار رہئے گا ۔۔۔۔مجھے سعدیہ پسند آ چکی تھی ۔اس نک چڑھی حسینہ کو کون نہیں قابو میں کرنا چاہے گا۔۔۔ساتھ ہی میں وقار کو میسج کرچکا تھا ۔۔۔۔اس نے بات کرتے ہوئے میسج پڑھا اور سعدیہ سے کہنے لگا کہ یہ آپ کے نئے اسٹوڈنٹ ہیں ۔۔کسی اسکول سے ٹرانسفر ہوئے ہیں اور انہیں سمر کیمپ میں شمولیت کو بڑا شوق ہے ۔آپ ان کو ٹرین کریں ۔۔۔۔سعدیہ نے ایک نظر میرے طرف دیکھا اور کہنے لگی سر ابھی تو تمام کلاسز ختم ہو چکیں ہیں اب ہم صرف مقابلوں کی ریہرسل کر رہے ۔۔۔ان کے سیکھنے کے لئے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ وقار نے کچھ سختی سے کہا کہ آپ انہیں اپنے ساتھ شامل کریں ، ۔۔اگر چل سکا تو ٹھیک ہے ورنہ نکال دیجئے گا ۔۔۔۔سعدیہ جی سر کر کے مڑی اور مجھے کہنے لگی کہ آ جائیں میر ے ساتھ ۔۔۔میں نے وقار کو آنکھ ماری اور سعدیہ کے پیچھے چل پڑا ۔ باہر نکل کر وہ مجھے گھورنے لگی کہ آپ مجھے اسٹوڈنٹ تو نہیں لگتے ۔۔۔میں نے دنیا جہاں کی معصومیت چہر ے پر لا کر کہا کہ مس اسکول میں ہی پڑھتا تھا بس کھاتے پینے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔۔وہ مجھے لے کر گراؤنڈ میں آ گئی جہاں ایکسرسائز ہو رہی تھی ۔۔اس نےنوٹس پڑھ کر سب کو سنایا ۔۔۔لڑکے سب مقابلے کا سن کر خوش تھے ۔۔۔اور شاید ان کا اسکول پچھلے سال اسی اسکول سے ہار کر بھی آیا ہوا تھا ۔۔۔خیر میں بھی لائن میں لگ گیا۔میں ڈریسنگ روم سے چینج کر کے آگیاتھا۔۔سامنے ایک چھوٹا اسٹیج بناہوا تھا ۔۔۔جہاں سعدیہ کھڑی ایکسرسائز کروارہی تھی ۔۔۔ہمارے وقت میں تو ایک آرمی کے ریٹائر ہوتے تھے اور بڑی گندی ایکسر سائز کرواتے تھے اور یہاں ۔۔۔مس سعدیہ ۔۔۔۔کافی اچھی تبدیلی آئی تھی ۔۔۔مس سعدیہ نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ راجہ ؟ سعدیہ کا منہ غصے میں لال ہو گیا تھا ، کہنے لگی کہ کس ریاست کے راجہ ہو ۔۔۔اصل نام کیاہے ۔۔۔میں نے جواب دیا کہ رضوان ۔۔
آئندہ سے یہاں کے تمام اصول کے آپ پابندی کریں گے ، اور کسی بھی رولز کو توڑنے پر سخت سزا دی جائے گی ۔۔۔میں نے زور سے کہا ۔۔یس ٹیچر۔۔
اس کے بعدایکسرسائز شروع ہوئی ۔۔میں نہایت اطمینان سے تمام ایکسر سائز دیکھ رہا تھا ۔کہ مس کی آواز آئی ۔۔اؤ ے صرف دیکھنے آئے ہو کیا ۔چلو تم بھی کرو ساتھ ۔




میں سعدیہ کو کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر ڈپس کے لئے جھک گیا۔۔۔۔باقی لڑکے ٹھیک کر رہے تھے ۔۔اور میں تھوڑا سا اٹھ کر واپس جھک جاتا تھا ۔۔۔کچھ ہی دیر میں سعدیہ آئی اور اپنے شوز میری پیٹھ پر رکھ کر زور دے دیا ۔میں مٹی پر لیٹ گیا ۔۔صحیح سے کرو ، ورنہ اوپر دوسرے لڑکے بٹھا دوں گی ۔۔۔۔میں جی مس کہ کر اٹھا اور اب پاؤں کے بل ڈپس لگانے کے بجائے اپنےگھٹنے ٹکا کر ڈپس لگانا شروع کردئیے ۔اب میں پوری طرح سے اوپر اٹھ رہا ، سعدیہ دوبارہ میری طرف آئی تھی اور میرے گھٹنے پر ایک لات پڑی ۔۔اس اوپر اٹھاؤ ۔۔۔۔۔تمام لڑکے ہنس رہے تھے ۔۔۔۔اب سعدیہ میرے قریب آ کر بیٹھ چکی تھی ۔۔اس کا ایک ہاتھ میرے کندھے سے کچھ اوپر تھا ۔۔۔یہاں تک آپ نے اپنے شولڈر کو ٹچ کرنا ہے ۔۔ٹھیک سے اٹھیں۔۔۔۔میں چہرے پر بیزاریت اور تکلیف کے آثار پیدا کر کے اٹھنے لگے ۔۔۔جب اسپیڈ تھوڑی اور کم ہوئی تو اس نے میرے سینے کے نیچے ہاتھ رکھا اور مجھے اٹھانے میں ہیلپ کرنے لگی ۔۔۔باقی لڑکے اس کی آواز پر ساتھ ساتھ ڈپس لگا رہے تھے ۔۔۔۔میں تھوڑا تھکنے لگا تو اس نے تھوڑا اور قریب آ کر زور لگایا اور اس وقت اس کے بدن کی مست خوشبو میرےنتھنوں میں گھسی تھی ۔۔۔کیا غضب کی مست گرم مہک تھی ۔۔۔۔سعدیہ نے بھی میرے سونگھنے کو محسوس کرلیا تھا ۔۔وہ اٹھ کر سامنے اسٹیج پر چلی گئی ۔۔اور اگلی ایکسرسائز شروع کر تھی ۔۔۔جمپنگ میں باقی لڑکے تو اپنی جگہ پر جمپ کر رہتے تھے اور میں تھا کہ جمپنگ کرتے ہوئے پورے گراؤنڈ میں گھوم رہاتھا ، سعدیہ بار بار آتی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی جگہ پر کھڑا کرتی ۔۔اسے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ میں اسے تنگ کر رہا ہوں ۔۔۔مزید غصے اسے میرے گھورنے پر تھا ۔جو میں بڑی عاشقانہ انداز سے کر رہا تھا ۔۔۔۔قریب ڈیڑھ گھنٹا بعد ایکسرسائز ختم ہوئی اور شو فائٹنگ کی ریہرسل شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔سعدیہ کو مجھ پر غصہ اتارنے کا ایک موقع مل گیا تھا ۔۔اس نے کلاس کے سب سے اچھے فائٹر کے ساتھ میری فائٹ کا نام لیا ۔۔۔۔وہ لڑکا بھی حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔فائٹ شروع ہوئی تو اس کے تابڑ توڑ حملے شروع تھے ۔۔پہلی لات میری پسلیوں کی طرف آئی تھی ۔۔۔اور میں بلاک کرتے ہوئے زمیں پر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔سعدیہ کی دوبارہ آواز ابھری ۔۔۔کیا لڑکیوں کی طرح لڑ رہے ہواٹھو مقابلہ کرو ۔۔میں سمبھلتا ہوا اٹھا توایک گھومتی ہوئی لات منہ پر کھا کر دوبارہ لیٹ گیا ۔۔۔۔سعدیہ مجھے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔جیسے کہ رہی ہو ۔دیکھا مجھے گھورنے کا انجام ۔۔۔ میں دوبارہ اٹھا ۔۔۔مجھے سے پہلے ہی وہ لڑکا اچھل چکا تھا اور اب کی بار سر پر پڑنے والی لات نے مجھے دن میں تارے دکھا دئے ۔۔۔اور میں دوبارہ سے لیٹ گیا تھا ۔۔۔۔اور اٹھ کر دونوں ہاتھ اٹھا دئے ۔۔۔اور مقابلے سے پیچھے اٹھ گیا ۔۔۔۔میرے بال بکھر چکے تھے ، ایک گال پر سرخ نشان بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اور سرکے ایک طرف ہلکا سا گومڑ نکل رہا تھا ۔۔۔میں اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر واپس وہیں آگیا ۔۔جہاں باقی لڑکوں کی فائٹس ہو رہی تھی ۔۔سب کی اچھی تیار ی تھی ۔۔۔۔۔سب پرجوش تھے ، سوائے میرے جو درد سے کراہ رہا تھا ۔۔۔سعدیہ مجھے طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی اسے گھورتے ہوئے آنکھ مار دی ۔ ۔۔۔خیر فائٹس ختم ہوئی اور ہلکا سا ریفریشمنٹ کا دور چلا ۔۔۔میں نے وقار کو میسج کر دیا تھا کہ میں بھی انہی کے ساتھ دوسرے اسکول جاؤں گا اور واپس پر ملاقات ہو گی ۔۔۔ریفریشمنٹ کے بعد ایک کوسٹر آ گئی تھی۔۔۔ہم سب تیار ہو کر اندر جا کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔مجھے سب سے پیچھے لمبی سیٹ پر بٹھا یا گیا اور سعدیہ آگے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔کچھ دیر میں ہم مقابلے والے اسکول پہنچ چکے تھے ۔۔۔گراؤنڈ میں تین طرف سے کیمپنگ ہوئی وی تھی اور سامنے ہی ایک رنگ بنایا ہوا تھا۔۔۔ہمیں ایک کیمپ مل گیا تھا اور ہم سامان رکھ کر آرام کرنے لگے ۔۔سعدیہ تمام لڑکوں کو پوائنٹس اور فائٹ کی ٹپس دے رہی تھی ۔۔۔اور میں اس کےجسم کے پوائنٹس گن رہا تھا ۔جوکہ سو سے کم ہرگز نہیں تھے۔۔۔۔وہ میرے گھورنے سےڈسٹرب ہو رہی تھی ۔۔۔مجھے دیکھنے کر کہنے لگی کہ اور آپ مسٹر رضوان ان کو پانی وغیرہ پلائیں گے ۔۔۔۔اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ پوری کریں گے ۔۔میں نے کہا جی ٹیچر ۔۔۔مقابلے شروع ہو چکے تھے ۔۔کل پانچ مقابلے ہونے تھے جن میں پتا چلنا تھا کہ کوں اگلے راؤنڈ کے لئے کوالیفائی کرے گے ۔۔۔۔اور ہارنے والا اسکول مقابلے سے باہر ہو جانا تھا۔۔سعدیہ نے نمبرنگ کر دی تھی ۔۔جس فائٹر نے مجھے ہرا یا تھا اسے سب سے آخر میں رکھا گیا تھا ۔۔۔۔پہلی فائٹ ہمارا اسکول ہار گیا تھا ۔۔لڑکا رنگ میں گھبرا گیا تھا ۔میں وہیں رنگ کے برابر میں اسے پانی پلا رہا تھا ۔۔۔دوسری فائٹ ہمارا اسکول جیتا تھا ۔۔تیسری فائٹ ہم دوبارہ ہار چکے تھے ، ۔۔چوتھی فائٹ میں سعدیہ نے لاسٹ والے نمبر کو بھیج دیا تھا ، اور وہ جیت کر آ گیا ۔اب دو اور دو سے فائٹس برابر تھیں ۔۔اور لاسٹ فائٹ پر پورے میچ کا انحصار تھا ۔۔۔۔۔لاسٹ والے اسکو ل نے اپنا سب سے بیسٹ فائٹر اتار ا جو عمر میں بھی بڑا لگتا تھا ۔۔اور شکل سے بھی خوفناک لگ رہا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اب گھبرائی ہوئی تھی ۔۔بیسٹ فائٹر وہ پہلے بھیج چکی تھی ۔۔اور پیچھےسب نارمل تھے جو صرف ڈیفنس ہی کر سکتے تھے ۔۔ان کا اسکول پہلے ہی مقابلے میں باہر ہونے والا تھا ۔۔اس نے جس لڑکے کو سیلیکٹ کیا تھا وہ رنگ تک بمشکل آیا تھا ۔۔صاف لگ رہا تھا کہ مقابلہ ان فئیر ہو رہا ہے ۔۔۔سعدیہ اس لڑکے کو رنگ میں بھیج کر زرد چہرے سے کیمپ کی طرف جا کر بیگ پیک کرنے لگی تھی ۔۔۔میں کچھ دیر تک یہ سب دیکھتا رہا ۔اور پھر حرکت میں آنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔اس لڑکے کو روک کر میں رنگ میں اتر چکا تھا ۔۔ہمارے لڑکے سب پریشان تھے ۔۔۔۔وہ میری ہار دیکھ چکے تھے ۔۔۔۔اور اب وہی دوبارہ ہونے والا تھا ۔۔۔سامنے والا لڑکا کافی اچھل کود کررہاتھا ۔۔۔ریفری نے ہمارے ہاتھ ملائے اور فائٹ شروع ہو گئی ۔۔۔لڑکے نے شروع میں ہی جمپ بیک کک رسید کی تھی ۔۔وہ ہوا میں اچھلا اور اس کی لات گھومتی ہوئی میرے چہرے کی طرف آئی تھی ۔۔میں نہایت اطمیناں سے بیٹھتا ہوا اس کے قدموں کو زمین پر گرتا دیکھ رہا ہے ۔جیسے ہی اس کے پیر زمین کے قریب پہنچے۔میں ایک تیز سوئپ کک کی مدد سے اس کے پیروں کو زمین پر لگنے سے پہلے ہی گھسیٹ چکا تھا ۔۔وہ اپنے پورے زور سے نیچے گرا تھا ۔۔۔جلد ہی دوبارہ اٹھ کر کینہ توز نگاہوں سے گھورنے لگا۔۔۔۔وہ دوبارہ جمپنگ کرتا ہوںمیرے دائیں بائیں حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔اس کی دو چار سائیڈ ککس میں نے بلاک کی تھیں۔اب میں اس کی طرف سائیڈ کک کے لئے بڑھ رہا تھا۔میری کک اس کے چہرے کی طرف بڑھی تھی اور اس نے بلاک کرتے ہوئے مجھے ہی میرا داؤ مارا تھا نیچے جھک کر سوئپ کک۔۔۔میرا ایک پاؤں ہوامیں اور ایک زمین پر تھا ۔۔اگر یہ کک مجھ لگ جاتی تو میں بھی اس کی طرح زمین پر گرتا۔۔۔اس سے پہلے کہ اسکی کک مجھے چھوتی ، میں اپنے اسی پیر کو ہوا میں اچھالتا ہوااس کے سینے پر رسید کر چکا تھا ۔۔وہ لڑ کھڑا کر پیچھے کو گیا تھا ۔۔۔ہم دونوں دوبارہ سے ایکدوسرے کے سامنے تھے ۔۔ہمارے لڑکے اب حیرانگی سے ہماری فائٹ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔وہ لڑکا اب کافی غصے میں تھے اور ڈیفنس بھول کر صرف اٹیک کرنے کے چکر میں تھا جو کہ میری مشکل ہی آسان کر رہا تھا ۔۔ایک دفعہ وہ اٹیک کے لئے قریب آیا تومیری راؤنڈ ہارس کک اس کے چہرے پر پڑی تھی ۔وہ سنمبھل ہی رہا تھا کہ کہ میں اس کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوا اور ایک اونچی جمپ کی ، میں ہوا میں گھوما تھا اور میرے دونوں پیر ہوا میں گھومتے ہوئے اس کی کنپٹی پر پڑے تھے ۔۔۔وہ تیورا کر گرا تھا ۔۔۔یہ فائنل کک تھی ۔۔اس کے بعد اس کا اٹھنا مشکل تھا ۔۔۔۔اور وہی ہو ا ، ریفری نے میرے جیت کا اعلان کیا ۔۔۔ہمارے لڑکے رنگ میں داخل ہوئے اور اور مجھے کندھوں پر اٹھا لیا ۔۔ہم پہلا راؤنڈ جیت چکےتھے ۔۔سب کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی ۔۔وہ مجھے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہی کیمپ کی طرف چلے گئے جہاں سعدیہ بیگ پیک کئے بیٹھی تھی ۔۔شور سن کر وہ باہر آئی اور حیرانگی سے مجھے ان کے کندھوں پر دیکھنے لگی ۔۔لڑکوں نے شور مچا دیا تھا کہ ہم جیت گئے ہیں ، ہم جیت گئے ۔۔۔وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی ۔۔۔لڑکے سب خوش تھے اور اب مجھے سے فری ہو چکے تھے ۔۔کچھ ہی دیر میں ہمیں اگلی فائٹ کی ڈیٹ ملی اور ہم واپسی کے لئے کوسٹر پر بیٹھے گئے ۔۔ایک دو لڑکوں نے میری فائٹ کی ویڈیو بنائی تھی وہ انہوں نے سعدیہ کو دکھائی ۔۔سعدیہ نے میری طرف نظر بھر کر دیکھا اور شیشے سے باہردیکھنے لگی ۔۔اب اس کی نظروں میں سے طنز ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے بس سے ہی وقار کو ایک میسج کردیا تھا ۔۔۔۔اسکول کے قریب لڑکے تو گھر جانے کے لئے اتر گئے اور سعدیہ آفس کی طرف چلی گئی وقار کو بتانے کے لئے ۔۔۔میں بھی پیچھے ہی تھا ۔۔وقار کو آفس میں نہ پا کر وہ مڑنے ہی لگی تھی کہ میں نے آگے بڑھ کراسے تھام لیا ۔۔۔اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتے ہوئے میں اس کی بیک کو ٹیک لگا چکاتھا ۔۔۔وہ کسمسائی اور چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔مگر میری گرفت مضبوط تھی ۔۔میں نے اس کی پشت سے لپٹتے ہوئے اپنا چہرہ اس کے بالکل قریب کر چکا تھا ۔۔کچھ ہی دیر میں اس کی کوشش تھک چکی تھی ۔۔۔کون ہو تم اور یہ سب کیوں کیا تم نے ۔۔۔۔میں نے اس کے کانوں میں بتا یاکہ میں وقار کا دوست تھا اور اسے آفس میں دیکھا وہ مجھے اچھی لگی تو میں اسٹوڈنٹ بن گیا ۔۔۔۔اور وہ جو تم نے یہاں مارکھائی تھی وہ ؟؟مس سعدیہ آپ کا پیار پانے سے پہلے مار کھانا بھی ضروری تھا۔۔بس وہ سب وہی تھا ۔۔وہ دھیمی آواز سے بولی اگر سب پہلے بتا دیتے تو زیادہ اچھا تھا ۔۔میں نے کہا کہ کم اچھا تو اب بھی نہیں ہے ۔اور اس کے کانوں کو اپنے ہونٹو ں کو دبا کر چومنے لگا ۔۔اس نے ہلکا سےچہرہ میری طرف موڑا ۔۔اس کی نگاہوں میں بھی اب میرے لئے پسند کی لہریں نظر آرہی تھی ۔۔اگر وقار آگیا تو۔۔میں نے اسے سیدھا کرتے ہوئے اس کے گرد بازو لپیٹ چکا تھا ۔۔۔وہ نہیں آئے گا۔۔اور ساتھ ہی اس کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔اس کاجسم جس طرح ورزشی اور کسا تھا ، ہونٹ اتنے نرم اور ملائم تھے ۔۔۔۔اس کی بیک آفس کی ٹیبل سے لگی ہوئی تھی اور ہاتھ میرے کمر کے گرد ۔۔۔۔اور میری پوری شدت سے اس کے ہونٹوں کا رس کشید رہا تھا ۔۔۔۔کھلی ڈلی ٹی شرٹ میں سینے کی دونوں چٹانیں سختی سے تنی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔میں پورے دل جمعی سے اس کے چہروں کو تھام کر اس کے ہونٹ چوم رہے تھے ۔۔۔۔ساتھ ساتھ آگے کیطرف زور بھی دے رہا تھے ۔۔جہاں اس کی بیک ٹیبل سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس نے اپنی ٹانگیں قدرے پھیلا دی تھی ۔۔۔اور ہاتھ میری کمر پر حرکت کر رہے تھے ۔میں ہونٹ چومتے ہوئے اس کی ناک اور گالوں کو کاٹ بھی رہا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ اٹھ کر میرے سر پر پھسلنے لگے۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں ہی اس کی آنکھیں بھی نشیلی ہونے لگی تھیں ۔۔۔اس نے بھی آگے بڑ ھ کر میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔ہم دونوں باری باری ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے ۔۔۔اس مرتبہ وہ خود میرے مقابلے میں آئی تھی اور شاید ہارنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ۔۔۔اس کے ہونٹ چوسنے میں شدت آئی تو میں نے بھی زور بڑھا دیا۔۔ساتھ ہی اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھایا اور ٹیبل پر بٹھایا دیا۔۔۔اس کی پھیلی ہوئی دونوں ٹانگو ں کے درمیان میں کھڑا اسکی شدتوں کا سامنا کر رہاتھا ۔۔۔اس کی ناک سےنکلنے والی گرم گرم سانسیں میرے چہرے سے ٹکرائے ہوئے تھی ۔۔وہ پلٹ پلٹ کر جھپٹ رہی تھی ۔۔۔اور میرا اس سے ہارنے کو کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔وہ جتنا شدت سے میری چہرے پر لپک رہی تھی ، جوابی حملہ اس سے کہیں زیادہ شدت والا تھا ۔۔اب میں نے اپنی زبان نکال کر کر اس کے منہ میں ڈال لی تھی ۔۔جسے وہ بڑے مزے سے چوس رہی تھی ۔۔ساتھ ہی اپنی زبان کا رس بھی مجھے پلا رہی تھیں ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب اس کے سینے پر گردش کر رہا تھا۔۔جہاں ٹی شرٹ میں پھنسے ہوئے دو سختی سے تنے ہوئے ، اٹھے ہوئے ممےمجھے بلا رہے تھے۔ میں اوپر سے ہی انہیں دبا رہا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اب میرے بالوں کو کھینچ رہی تھی ۔۔اس کی آہیں آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میری بھی برداشت جواب دینے لگی ۔۔۔میں اس کی ٹی شرٹ پر ہاتھ ڈال چکا تھا ۔۔اس نے اپنے ہاتھ اٹھا دیا اور کچھ ہی سیکنڈ میں بلیک کلر کی اسپورٹس برا میں پھنسے ہوئے دودھ کے پیالے میرے سامنے تھے ۔۔۔سختی میں تنے ہوئے تھے ، صاف پتا چل رہ تھا کہ وہ کافی سخت ورک آؤٹ کی عادی ہے ۔۔مموں کی رگیں ابھری ہوئی تھی ۔۔ جلد ہی میں نے اس کی برا بھی اتار دی ۔۔۔۔۔نہایت متناسب ، فل مسلز سے تنے ہوئے ، کوئی ایکسٹرا فیٹ نہیں ۔۔۔اوراپنی پوری اٹھا ن کے ساتھ اٹھے ہوئےممے سامنے تھے ۔۔۔۔میں سعدیہ کو ٹیبل پر لٹا چکا تھا ۔اس نے میری کمر کے گرد اپنی ٹانگیں لپیٹ دی تھیں ۔۔۔۔اورمیں اب اس کے دونوں سخت مموں کو باری باری مسل دبا رہا تھا ۔۔۔اور یہ میرا پہلے تجربہ تھا ۔۔اس قسم کے سخت سخت مموں کو چھونے کا ۔۔۔۔اور میں اس کو پورا فائدہ اٹھا رہا تھا ۔۔۔اس کی سسکیاں نکلنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔۔اس کے نپلز چھوٹے چھوٹے اور نوکیلے تھے ۔۔۔۔میں نے بھی وقت ضائع کیے بغیر انہی اپنے منہ میں سمبھال لیا ۔۔۔ممے چوسنے میں مجھے مشکل کا سامنے تھا ۔۔۔ممے اتنے نرم نہیں تھے کہ منہ میں سما جاتے ۔۔۔سختی کے وجہ سے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا تو دانتوں سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔میں بھی تنگ آکر ٹیبل پر چڑھ گیا ۔۔۔وہ بھی مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔جیسے دعوت دے رہی ہو کہ قابو کر کے دکھاؤ ۔۔۔۔میں اوپر چڑھ کر اس کا سر اپنی رانوں پر رکھ دیا اور مموں پر دوبارہ حملہ کرنے لگا ۔۔میں اپنے ہاتھ کی پوری گولائی سے اس کا ایک مما پکڑتا ہے اور اسے دباتا ہوا منہ کی طرف لے جاتا مگر صرف اپنے ہونٹ ہی ٹھیک سے پھیر پاتا ۔۔۔باقی ممے ایسے ہی باہر رہتے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں اس کے دونوں ممے میرے تھوک سے گیلے ہو چکے تھے ۔۔۔میں اپنا ایک ہاتھ اس کے پیٹ پر پھیرنے لگا جہاں سکس پیک مجھے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے ۔۔۔۔اس کی پوری بوڈی شریڈڈ تھی ۔۔۔کہیں پر ایک انچ بھی ایکسٹرا فیٹ نہیں چھوڑا تھا جوان کی بچی نے ۔۔۔ایک بار تو مجھے لگا تھا کہ کوئ مشینی جسم ہے مگر اس کے گرمی اور شہوت سے بھری آوازیں بتا رہیں تھیں کہ اندر سے وہ بھی ایک عام لڑکی کی طرح جذبات رکھتی ہے ۔۔۔۔میں اس کے سکس پیک اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر جذباتی ہو چکا تھا اور اس کے اوپر بیٹھتے ہوئے اس کو ہونٹوں پر ٹوٹ پڑا تھا ۔۔اس کے چہرہ کا کوئی حصہ باقی نہیں بچا تھا جسے میں نے چوسا اور چوما نہ ہو۔۔۔۔وہ بھی اپنی ہاتھوں کو میری کمر پر رکھ کرنیچے کی طرف پھیرتی ۔۔۔۔اب اس نے اپنے ہاتھ بڑھا کر کراٹے کی بیلٹ کھولی اور میری شرٹ اتارنے لگی ۔۔۔۔کچھ یہ دیر میں میرا چوڑا سینہ اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔وہ تعریفی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ، پھر مجھے اشارہ کرتے ہوئے نیچے لٹا دیا ۔۔اور میرے اوپر بیٹھ گئی ۔۔۔۔وہ بھی اتنی ہی شدت سے میرے چہرے کو چوم اور چاٹ رہی تھی ۔۔۔اوریہاں تک میں اپنے کانوں کو بھی اس کے تھوک سے گیلا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔میں بڑی بے دردی سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا ، جہاں سختی اور ابھرے ہوئے مسلز نمایاں محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔وہ تھوڑا نیچے ہو کر میرے سینے کو چومنے لگی تھی ۔۔اور کچھ ہی دیر میں میرے نپلز بھی چوس رہی تھی ۔۔مجھے گدگدی کے ساتھ کے ایک انرجی نیچے کو جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔میرا ہتھیار اس ٹراؤز میں پھنسا ہوا تھا ، اورنکلنے کے لئے پھڑپھڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔سعدیہ نے میرے پورے سینے کو چوم چوم کر گیلا کر دیا ، سیکس اور شہوت میں وہ کچھ بھی کم نہیں تھی ۔۔اپنا حصہ وصول کرنے والی ، خود کو اس میدان میں بھی منوانے والی تھی ۔۔وہ اب نا ف سے اور نیچے جانا چاہ رہی تھی ، مگر میں نے اس کے ہاتھ پکڑے اور اپنے اوپر کھینچ لیا ۔۔اس کے سخت ممے پوری فورس سے میرے سینے میں کھبے تھے اور وہ میرے سر کے گرد اپنے ہاتھ لپیٹ کر دوبارہ چومنے لگی ۔۔۔۔میں نے نیچے ہاتھ لے جا کر اس کے ٹراؤزر کی ڈوری کھولی اور نیچے کرنے لگا ۔۔۔۔اس نے میں بھی میری مدد کی اور کچھ دیر میں پینٹی سمیت اتار چکا تھا ۔۔۔اس کے دونوں چوتڑ اسی طرح سختی سے ابھرے ہوئے ، ایک ایک چوتڑ کسی خربوزے کی طرح گول مٹول اور سختی میں بھرئے ہوئے تھے ، بے اختیار میرے ہاتھ کا ایک ایک ہلکا سے تھپڑ اس کے چوتڑ پر پڑا تھا ۔۔۔۔جس نے ایک ہلکا نشان چھوڑ دیا ۔۔۔سعدیہ کچھ کم تو تھی نہیں اس نے میرے ہونٹوں کو اس زور سے کاٹا کہ میں بلبلا اٹھا ۔۔۔اب میں اس کے دونوں چوتڑوں کو دباتا اور رانوں پر ہاتھ پھیرتا ۔۔اور پھر ہاتھ واپس لا کر اس کی کمر پرگول گول دائرے بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔نیچے سے میرا ہتھیار کھڑا ہو کر سلامی دینے لگا تھا ۔۔۔۔۔جس کا اسے بھی احساس تھا ۔۔۔۔وہ اٹھی اور الٹی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔اب اس کاچہرہ میرے نچلے حصے کی طرف تھا ۔۔اور میں اس کی بیک کو بغور دیکھ رہا ۔۔۔کسی ایتھلیٹ کی طرح ابھرے ہوئے مسلز ، پتلی سی کمر اور نیچے متوازن اور گول سی گانڈ میرے سامنے تھے ۔۔۔جو میرے دونوں ہاتھوں میں دبی ہوئی تھی ۔۔۔سعدیہ میرا ٹراؤز اتارنے لگی تھی ،۔۔اور کچھ ہی دیر میں اس کی حیرت میں ڈوبی ہوئی چیخ میرے سامنے تھے ۔۔۔افف۔۔اتنا بڑا ۔۔۔اس نے بے اختیار اسے منہ میں لینے کی کوشش کی مگر بامشکل ٹوپا ہی لے پا رہی تھی ۔۔۔۔۔اس نے دوبارہ سے اپنی کلائی میرے ہتھیار کے ساتھ لگا ئی۔۔۔دونوں میں کچھ خاصی کمی نہ تھی ۔۔۔اس کی کلائی تھوڑی پتلی تھی ۔۔اور میرا ہتھیار گول مٹول ، گوشت سے بھرا ہوا ۔۔۔لمبائی میں قدرے برابر ۔۔۔۔وہ اب تھوڑی اٹھ کر اپنی چوت میرے چہرے کی طرف اٹھا چکی تھی ۔۔۔جہاں مہکتے ہوئے دو ریشمی لب میرے سامنے تھے ۔۔۔میں نے اس کی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اور اس تھوڑ ا جھکا کر اپنی زبان اس کی چوت پر رکھ دی ۔۔۔اس کی ایک سسکاری نکلی اور اس نے بھی ایک بڑا سا تھوک کا گول میرے ہتھیار پر پھینکا اور اپنے دونوں ہاتھو ں سے ملنے لگی ۔۔میرا ٹوپا اس نے دوبارہ اپنے منہ میں پھنسا لیا تھا ۔۔۔۔اوراسی سے اپنا تھوک گرا رہی تھی جو تیرتا ہوا نیچے تک آ جاتا تھا۔۔اور ادھر میں اس کے چوت کے دانے کو ہونٹوں میں دبا رہا تھا ۔۔۔۔کبھی زبان سے چاٹتا۔۔کچھ دیر میں میں نےاپنی زبان کی نوک بھی اندر داخل کردی ۔۔اس کی چوت بھی اس کی طرح ٹائیٹ تھی ۔۔۔۔میں بھی چہرہ اٹھا اٹھا کر زبان اندر باہر کر رہا تھا ۔۔اور دوسری طرف اس نے پورا لن اپنے تھوک سے نہلا دیا ۔۔شرر شرر ۔۔۔امم امم کی آوازیں پورے آفس میں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔اس کا انداز جارحانہ ہوتا جا رہاتھا تو میں نے بھی اس کے چوتڑ پر ہاتھ رکھے اور دبا کر اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔ہمیں اسی پویشن میں پانچ منٹ ہو چکے تھے ، اب اس کی چوت تھوڑی دیر بعد اوپر اٹھنے لگتی اور میں دوبارہ اسے دباتا ۔۔۔۔کچھ دیر اور گذری تھی ۔۔۔۔کہ اس کے زوردار سسکیاں نکلی اور وہ اٹھتی ہوئی سائیڈ پر ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔میں اٹھا اور اسے بانہوں میں اٹھا کر صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔۔۔میرا ہتھیار ابھی تک کھڑا ہوا ہوشیاری سے لہرا رہا تھا ۔۔۔اس کا کمر تک جسم صوفے پر تھا اور اس سے نیچے ٹانگیں نیچے کی طرف تھی ۔۔میں سعدیہ کے ہونٹوں پر جھک کراس کے ہونٹوں کو چوم رہا تھا ۔۔۔اس کے بال پوری طرح سے بکھر چکے تھے ،،آنکھیں لال نشیلی ہوئی تھیں ۔۔۔اور جسم سے اٹھنے والی گرمی مجھے بھی تپا رہی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر ہونٹے چوسنے کے بعد مموں پر مساج شروع کر دئیے جن پر تھوک خشک ہو چکا تھا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں اس کی سسکیا ں دوبارہ سے بلند ہونے لگیں ۔۔۔ٹانگیں اٹھانے کا ٹائم آ چکا تھا۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں سمبھال لیں تھیں ۔۔۔اس کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھی ۔۔۔ساتھ ہی اس نے تھوک اکٹھا کر کے لن کے ٹوپے پر مل دیا تھا ۔۔۔میں نے اسے ہی اشارہ کیا تو اس نے اپنے ہاتھ سے ٹوپا پکڑ کر اسے اپنی چوت پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔اس کی سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔اس نے کچھ دیر بعد ٹوپا اپنی چوت کے لبوں پر پھنسانے کی کوشش کی ، مگر چوت کے لب پورے طریقے سے آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ ٹوپا اوپر کی طرف سلپ ہو گیا ۔۔۔وہ دوبارہ سے اوپر رگڑنے لگی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد پھر ٹوپ رکھ کر مجھے دیکھا ، میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھایا ۔۔۔چوت کے لب چیرتے ہوئے میں صاف دیکھ رہا تھا ۔۔ساتھ ہی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے لگے تھے ۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں اپنی کمر کے گرد کیں اور ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھے کر دبانے لگا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ٹوپے کر اور فکس کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی میں نے تھوک اکھٹا کر اوپر کی طرف سے پھینکا ۔۔۔چوت کافی ٹائٹ تھی ۔ اور درد اسے برداشت کرنا تھا ۔۔۔۔وہ سس سس کی آوازوں سے لرز رہی تھی اور کبھی لن کی طرف نظر ڈالتی اور کبھی میرے چہرے پر دیکھ کر زبان باہر نکالنے لگتی ۔۔۔۔ میں دباؤ بڑھاتے جا رہا تھا ، اور اب ٹوپا اندر داخل ہو چکا تھا ۔۔اس نے ایک گہر ی سانس لی اور اس کے سختی سے تنے ہوئے ممے نیچے کو لہراے اور دوبارہ سے جم گئے ۔۔۔۔میں نے اب دونوں ہاتھ سے ان نوکیلے دودھ کے پیالوں کو تھام لیا تھا۔۔۔اور ٹوپے کوساتھ ساتھ ہلکا ہلاتا جا رہا تھا ۔۔۔وہ منہ اٹھا اٹھا کر سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔اس کی برداشت کمال کی تھی ۔۔ورنہ اب تک تو چیخیں نکل گئی ہوتیں تھی۔کچھ دیر میں اس کی سسکیاں کم ہوئیں تو میں نے دباؤ بڑھا دیا ۔۔اس نےکچھ اوپر ہونا چاہا مگر میں بھی اس کے ساتھ ہی اوپر ہوا تھا ۔۔۔میں اس کے مموں کوپورے دباؤ سے مسل رہا تھا ۔۔۔اس کی مموں کی سختی میرے ہاتھ کی ہتھیلی پر محسوس ہورہے تھے ۔۔میں نے دونوں مموں پر پوری ہتھیلی کو پھیلایا اور اس کے نپلز کو انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے تھام لیا اور مروڑنے لگا ۔۔۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے دباؤ بڑھاتا گیا ۔۔۔۔سعدیہ سانس روک کر لیٹی تھی ۔۔میں بھی دباؤ بڑھاتا گیا ۔۔کچھ ہی دیر میں آدھا ہتھیار میں اندر اتار چکا تھا ۔۔۔سعدیہ نےسانس باہر پھینکی اور اس کی ساتھ ہی اس کی آہیں بھی نکلنے لگیں ۔۔۔آہ۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔۔اس نے نیچے نظر ڈالی تو ابھی آدھا ہتھیار باہر ہی تھی ۔۔کچھ دیر اس کی سسکاریں سننے کے بعد میں اس کے اوپر جھک گیا تھا ۔۔۔اس کے ہونٹوں کو چوما تو لرزنے کے ساتھ ساتھ وہ خشک بھی تھی۔۔۔میں نے دوبارہ سے اپنی تھوک نکالی اور اس کامنہ تر کر دیا ۔۔۔۔میرے آگے جھکنے کے ساتھ ساتھ ہتھیار کچھ اور بھی داخل ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے اب نیچے سے کمر ہلانی شروع کر دی تھی ۔۔میرا ہتھیار بری طریقے سے اس کی چوت میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔اور مجھے بھی اتنی ہی مشکل سے اندر باہر کرنا پڑرہا تھا ۔۔سعدیہ کی سسکیوں میں اف اف کی آوازیں زیادہ تھیں ۔۔۔۔ہر ایک کا الگ تجربہ ہو رہا تھا مجھے ۔۔۔میں نے لن ٹوپے تک باہر کھینچا اور دوبارہ پسٹن کی طرح اندر دھکیل دیا ، وہ دوبارہ سے اوپر کو اٹھی اور افف کی آواز کےساتھ ایک سسکاری نکلی ۔۔۔۔میں اب اتنا ہی لن کو اندر باہر کررہا تھا ۔۔اب میں دو تین بار آگے پیچھے کرنے کے ساتھ ایک جھٹکا بھی دے رہا جس سے سسکاریاں نکالتی سعدیہ کے منہ سے افف کی آوازیں نکلتی ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائی اور صوفے کے اوپر چڑھ آیا، اسے اس کے سر اور کندھے کے بل کھڑا کرتے ہوئے ٹانگیں دائیں بائیں کھول دیں ۔ اور عین اس کی چوت کے اوپر آتے ہوئے لن کو سیدھ اندر اتار دیا ۔۔۔۔سعدیہ کے دونوں ہاتھ صوفے پر تھے جہاں وہ گردن اور سر کوٹکا ئے پورا بدن ہوا میں اٹھائے کھڑی تھی ۔۔میرا لن اب بالکل سیدھ میں نیچے اتر رہا تھا ۔۔۔کچھ دیر میں میری اسپیڈ تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔سعدیہ کی اب برداشت والی اسٹیج ختم ہو چکی تھی اور اب وہ پورا منہ کھول کر آہیں اور سسکیاں بھر رہیں تھیں ۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔آہ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں سار ا خون اس کے سر کی طرف جمع ہونے لگا۔۔اس کا منہ بالکل سرخ ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے اسے اٹھایا اور خود صوفے پر ٹانگیں نیچے کر کے بیٹھ گیا ۔۔۔اور وہ منہ دوسری طرف کئے اپنی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر میرے ہتھیار پر سواری کرنے لگی ۔۔۔اس کی ٹانگوں میں غضب کی اسٹرینتھ تھی ۔۔وہ درد اور کراہ کے ساتھ ساتھ تیزی سے اوپر نیچے ہورہی تھی ۔۔میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے سخت سخت چوتڑ دبا رہا تھا ۔۔۔۔۔پانچ منٹ اسے ہی گذر ے تھےکہ اس کی اسپیڈ کم ہونے لگی تو میں نے اسے چوتڑ سے سمبھال کر اٹھا لیا اور سامنے ٹیبل پر اس کے ہاتھ جما دئے اور اسکی رانوں کو پکڑ لیا ۔اس کے دونوں ہاتھ ٹیبل کے سرے پر جمے ہوئے تھے ۔۔۔اور رانیں میرے ہاتھوں میں تھیں ۔باقی پوری باڈی ہوا میں جھول رہی تھی ۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک اندر ہی تھا ، میں نے ٹوپا اندر رکھتے ہوئے ایک زور دار جھٹکا مارا ۔۔۔اس کے منہ سے اوئی کی آواز نکلی اور پھر آہ ۔۔۔۔افف شروع ہو گئی ۔۔۔اس کے بعد میں جھٹکے پر جھٹکا مارتا گیا ۔۔۔جب تک اس کے بازوؤں میں ہمت تھی وہ جمی رہی تھی ۔۔پھر تھکنے لگی تو میں اسے اٹھا کر ٹیبل پر آ گیا ۔۔سیدھ لٹاتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگوں کو جوڑ کر سیدھا ہوا میں اٹھا دیا ۔۔۔۔اب وہ الٹے ایل شیپ میں تھی ، دونوں ہاتھ اس کی رانوں کے گرد گھما کر پیچھے سے لن اس کی چوت میں گھسا دیا ۔۔اس کی پھر آئی ۔۔۔آہ ۔۔۔افف کی زور دار آواز نکلی تھی ۔۔۔۔چوت پہلے سے تنگ ہو چکی تھی ۔۔۔اس لئے مجھے بھی اتنا ہی زور لگا نا پڑ رہا تھا ۔۔۔میں بھی جھٹکے پر جھٹکےدے رہا تھا ۔۔اورپانچ منٹ مزید گزرے تھے کہ اس کی آہیں اب تیز ہو کر پورے کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔تھی ۔۔۔افف ۔۔آہ ۔۔۔اور بیچ میں جب جھٹکا زیادہ پڑتا تو اوئی کی ایک سریلی آواز نکلتی ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں سعدیہ کی کمر اوپر کو جھٹکا کھانے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور ایک زور دار آواز کے ساتھ فارغ ہونے لگی ۔۔۔۔۔میں اس کے پیر ٹیبل پر رکھ کر اس کے برابر میں لیٹ چکا تھا ۔۔۔وہ بھی میری طرح پسینے پسینے ہوئی تھی ۔۔۔۔میں لیٹا تو وہ مجھ پر لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔۔اب اس کے منہ سے بھی راجہ ہی نکلا تھا ۔۔۔وہ بے اختیار میرے منہ کو چوم رہی تھی ، جس پر پسینہ بھی چمک رہا تھا ۔۔۔ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر نیچے سے ہتھیار کو تھام لیا جو اب تک فارغ نہیں ہو ا تھا ۔۔۔۔۔۔میرا ارادہ اب اسکے پچھلی جانے جانے کا تھا ۔۔۔مگر کوئی لبریکیٹ دور دور تک نہیں تھا ۔۔۔اور مجھے بھی شام میں امی کے ساتھ خالہ کے ہاں جانا تھا ۔۔۔اس لئے ارادہ بس کرنے کا تھا ۔۔۔سعدیہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی،میں نے اسے کہا کہ مجھے فارغ کر دو ۔۔۔۔وہ پہلے تو تھوک لگا کر ہاتھ اوپر نیچے کر نے لگی ۔۔ پھر نجانے کیا سوجھی ، اپنی ٹانگیں دائیں بائیں کر کے لن کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور بیٹھتی چلی گئی ۔۔آدھے سے زیادہ لینے کے بعد آگے کو جھکی اور میرے دائیں بائیں ہاتھ رکھ دی ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس کی کمر ہلنے لگی ۔۔۔وہ تیزی سے اوپر نیچے ہو رہی تھی ۔۔۔اور تین چار بار اوپر ہونے کےساتھ لن اندر لئے ہوئے دائیں بائیں کمر کو گھماتی ۔۔۔ساتھ ساتھ اس کی گرم گرم سسکیاں میرے منہ پر چھوٹ رہی تھی ۔۔میں نے بھی اس کے دونوں ممے تھام لئے اور انہیں مسلنے لگا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر گذری تھی کہ میں نے بھی نیچے سے جھٹکے شروع کردئے ۔۔۔۔ہمارا ردھم بن چکاتھا ۔۔۔وہ جب نیچے کو آرہی ہوتی تو میں اوپر کو جھٹکا مار رہا ہوتا تھا ۔۔۔اس کی سسکیاں کے ساتھ ساتھ اس کا بہنے والا پسینہ بھی مجھ پر گر رہاتھا ۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے تو اس سے برداشت نہیں ہونے لگے ۔۔وہ میرے سینے پر لیٹ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی ۔۔۔میں نے بھی دونوں ہاتھ اس کے چوتڑ پر جما کر جھٹکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔وہ اب میرے اوپر برے طریقے سے اچھل رہی تھی ۔۔۔اور لن کے طوفانی جھٹکے جاری تھے ۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ میں فارغ ہونے لگا ۔۔تو میں نے اپنی اسپیڈ دھواں دار کردی ۔۔۔جھٹکوں میں ہی وہ میرے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کرتی جو کبھی ناک سے ٹکراتے کبھی میری ٹھوڑی سے ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھ میرے سر کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔میرے جھٹکے اب اورطوفانی ہوتے جا رہے تھے ۔۔ساتھ ساتھ میرے منہ سے غراہٹ نکلنی شروع ہوگئی ۔۔۔۔سعدیہ یہ دیکھ کر تھوڑی اٹھ کر پیچھے کی طرف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔میرا خون نیچے کی طرف اکھٹا ہونا شروع ہو چکا تھا ۔۔اور ایک زور دار جھٹکے سے سعدیہ میرے اوپر آ کر گری تھی ۔۔۔۔میں نے جلدی سے اپنا ہتھیار تھا م لیا جس نے بارش شروع کر دی تھی ۔۔۔پہلا جھٹکا باہر گرا تھا کہ میں نے ہتھیار اس کی طرف کردیا ۔۔سعدیہ اپنی ہتھیلی پرمنی اکھٹی کرنے لگی جو اس کی ہتھیلی کو بھرتی ہوئی نیچے کو گرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا تو پانچ بج چکے تھے ۔۔جلدی جلدی اٹھ کر صفائی کی اور کپڑے پہننے لگا ۔۔۔ دوبارہ کب ملو گے ۔۔میں نے کہا کہ جلد ہی اور ہاں میں وقار سے تمہار ا نمبر لے کر کال کروں گا۔۔۔۔۔ جلد ہی کہیں اور ملیں گے ۔۔۔۔یہ کہہ کر میں نے وقار کو میسج کیا کہ آفس فارغ ہے ۔۔آکر سمبھالو ۔۔۔۔اور بائک لے گھر کی طرف چل پڑا

Post a Comment

0 Comments