Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

خونی رشتے (part 11)


راجہ کے جانے بعد میں کچھ دیر بیٹھ کر سوچنے لگی تھی کہ یہ سب کیا ہوا ۔۔۔اتنے میں صوفیہ بھی کمرے میں آگئی اور آتے ہی شرارتی انداز میں کہنے لگی کہ واہ بھئی ، آپ کے تو مزے ہی ختم نہیں ہو رہے ۔۔۔صبح میرے ساتھ اور اب راجہ کے ساتھ بھی شروع تھیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لپٹا دیا ۔۔۔اور کہا کہ ایک خوشخبری ہے تمہارے لئے ۔۔۔تم ایک مرتبہ پھر سے لائیو سین دیکھ سکتی ہو ۔۔۔۔راجہ کے ساتھ ؟؟؟ ہاں اور ۔۔۔۔۔تمہارے ابو کے ساتھ بھی ۔۔تینوں ایک ساتھ ۔۔۔صوفیہ ایک دم اچھل پڑی کہ یہ سب کیسے ہو گیا ابو کیسے راضی ہو سکتے ہیں ۔۔۔پھر میں نے پوراقصہ مختصر سنا دیا ۔۔۔۔۔۔صوفیہ یہ سن کر ابھی سے گرم ہونا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں کھانا کی آواز آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔اور ہم دونوں ماں بیٹی نیچے چل پڑی ۔۔۔۔نیچے اس کے ابو پہلے سے پہنچے ہوئے تھے ۔۔۔ان کے چہرے پر کچھ پریشانی اور تھکاوٹ صاف نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔ہم بھی جا کر کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔راجہ بھی نیچے آ چکا تھا ۔۔مناہل اور ربیعہ نے آج بریانی اور وائٹ کڑاہی بنائی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد کھیر کا دور چلا ۔۔۔۔اورمیں صوفیہ کو چائے اوپر لانے کا کہہ کر اوپر آ گئی ۔۔۔۔۔آخر تیاری بھی تو کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میرے پیچھے پیچھے ہی ان کے ابو بھی اوپر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔میں کمرے میں داخل ہو کر الماری کی طرف چلی گئی ، نبیل اوپر آ کر سیدھے میرے پاس آئے اور کہنے لگے نازیہ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔ادھر آؤ ۔۔میں ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے کہ اور پھر شروع ہوئے کہ نازیہ مجھے سے ایک غلطی ہو گئی امید ہے کہ تم مجھے معاف کرو گی ۔۔۔میں بھی پوری ایکٹنگ کر رہی تھی ۔۔کیسی غلطی اور آپ مجھ سے کیوں معافی مانگ رہے ۔۔۔۔۔ نازیہ سنو تو سہی ایک بڑی بھاری غلطی ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔بتائیں گے تو سنو گی ۔۔۔ آج میں کھیتوں کیطرف تھا ۔۔۔تو ایک لڑکی کے ساتھ راجہ نے مجھے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔ تو اس میں معافی والی کیا بات ہے ، کسی کام سے آئی ہو گی وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔نبیل صاحب کسمسا رہے تھے ، سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ، مگر جو خود نہ سمجھنا چاہا اسے کو ن سمجھائے ؟؟ نازیہ صرف دیکھا نہیں ہے نا ہم قابل اعتراض حالت میں بھی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے تھے ۔مجھے آپ سے ایسی امید نہیں تھی ۔میں ایک دم اٹھ کھڑی ہوگئی ۔۔۔انہوں نے میرا ہاتھ تھا م لیا کہ سنو تو سہی ، اس نے ویڈیو بھی بنا لی ہے اور اب وہ بڑے بھائی کو دکھانے والا ہے ۔۔۔میری عزت تمہارے ہی ہاتھ میں ہے ۔۔۔پلیز بچا لو مجھے ۔۔۔۔۔۔مگر اس معاملے میں میں کیا کرسکتی ہوں ۔۔۔۔جو مانگتا ہے آپ اس کو دے دیں ۔۔۔۔۔نازیہ سنو تو سہی ۔۔وہ تمہارے ساتھ ایک رات گذارنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔نبیل کے منہ سے یہ بات سنتے ہیں میں بیڈ پر گر سی گئی ۔۔۔افف میں نے یہ بات کیسی سن لی ۔۔۔۔۔۔آپ نے اسے کچھ کہا نہیں ایسی بات کرتے ہوئے ، اس کی ہمت کیسے ہوئی یہ سب سوچنے کی ، وہ ہمارا بھتیجا ہے وہ کیسے ہمارے ساتھ یہ سب کر سکتا ہے ۔۔۔۔ جو ہوتا ہے ہونے دے ، میں یہ سب نہیں کر سکتی ۔۔۔۔نبیل پھر میرا ہاتھ پکڑ کر منت کرنی شروع کردی ۔۔۔تم بڑے بھائی کو جانتی تو ہو ،انہوں نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے ۔۔۔۔ نبیل اب باقاعدہ میرے پیر پکڑنے کو ہو چکے تھے ،میں ان کا روتا منہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔میں نے کبھی راجہ کو اس نیت سے دیکھا تک نہیں ہے ۔اور آپ اچانک ایسی بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔اب نبیل کی حد ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ انہوں نے رونا شروع کر دیا تھا ۔۔نازیہ بس ایک بار میری خاطرمان جاؤ ، اس کے بعد کبھی نہیں ہو گا یہ سب ۔۔۔میں باہر کبھی منہ نہیں ماروں گا ۔۔۔ہمیشہ گھر میں آؤں گا ، اور تمہیں پورا پورا پیارد وں گا ۔۔اتنے عرصے میں جو کمی کوتاہی ہوئی سب کا ازالہ کروں گا۔۔۔۔۔بس ایک بار یہ کر لو ۔۔۔۔میں نے اپنے چہرے پر سوچنے کا انداز لگا دیا ۔۔۔۔۔اچھا میں سوچ کر بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نازیہ سوچنے کا ٹائم نہیں ہے ۔۔راجہ نے آج کا ہی کہا ہے ۔۔۔۔۔اچھا تو پھر میں اکیلے میں راجہ کے ساتھ کر لوں گی ۔۔۔۔۔آپ کے سامنے مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔نبیل نے دوبارہ سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔نہیں راجہ کی شرط یہی ہے اور ہمیں بھی کتنا عرصہ ہو گیا ہے ایک ساتھ پیار کیے ہوئے۔۔۔۔بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔جو بھی ہو گا اچھا ہی ہو گا۔۔۔۔۔میرے چہرے پر نیم رضامندی دیکھ کر وہ اٹھے کہ میں نیچے سے چائے پی کر آتا ہوں۔اور ہاں وہ کپڑے پہننا جو تم شادی کی شروعات میں پہنتی تھی ۔۔۔۔۔ نبیل کے جانے کے بعد میں مسکر ا اٹھی اور جلدی سے تیاری شروع کر دی۔۔۔صوفیہ کو اس کے کمرے سے بلا کر لے آئی ۔۔۔اور الماری سے سرخ کام والی ساڑھی نکال کر اسے استری کرنے کو دے دی ۔۔وہ بھی مجھے بار بار چھیڑ رہی تھی ۔۔۔۔باتھ روم میں جا کر باتھنگ ٹب میں جا کر گرم پانی کو نلکہ کھول دیا ۔۔اور واپس آ کر بہت ساری گلاب کی پتیاں پانی میں ڈال کر کر اس میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔آنے والی رات کی بہت ساری یادیں ذہن میں آ رہی تھی ۔۔۔۔راجہ اور نبیل دونوں کے ساتھ ۔۔۔صوفیہ کپڑے استری کر کے کمرہ اندر سے بند کر کے آ چکی تھی ۔۔۔باتھ روم کے دروازے پر پہنچ کر اس نے بھی کپڑے اتارنے شروع کر دئے ۔۔۔میں اسے دیکھ کر مسکرا دی ، بیٹی جو میری تھی ۔۔صبر اس سے بھی نہیں ہو رہا ۔۔۔۔کپڑے اتار کر اس نے بیڈ پر پھینکے اور دھیمی چال سے چلتی ہوئی اندر ٹب میں داخل ہو گئی ۔۔۔۔کیا چمکیلا اور گورا بدن تھا ۔۔۔نازک اور نفاست میں لپٹا ہوا ۔۔۔ میری بیٹی آ کر میرے اوپر لیٹ چکی تھی ۔میں نے اس کی جگہ بنانے کے لئے اپنی ٹانگیں پھیلا لیں تھیں۔۔۔۔۔اس کا سلکی بدن میرے اوپر سے سلپ ہو رہا تھا ۔۔۔وہ اوپر کی طرف ہو کر میرے ہونٹوں پر جھک گئی اور بے صبری سے چوسنے لگی ۔۔۔نیچے سےاس کے بازوؤں نے مجھے دبوچ لیا ۔۔۔امی آپ کتنے مزے کرنے والی ہیں نہ ۔۔اکیلے اکیلے ۔۔۔۔۔اس کی شدت اس کی گرمی کو ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔اس کے چھوٹے گول سخت ممے پانی لگے اب اور بھی چکی رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے اسکی بالوں کو پیچھے کیا اور اس کی نازک بے داغ کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔۔اس کے پورے بد ن پر بالوں کا ایک ذرہ نہیں تھا ۔۔اور گلاب کی پتی کی طرح ہی بالکل نازک تھا ۔۔۔نرم ملائم اور گرمی میں پگھلتا ہوا ۔۔۔۔۔صوفیہ بڑی تیزی سے میرے ہونٹ چوم رہی تھی ۔۔۔اس کی گرمی دیکھ کر میری چوت ابھی سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کی زبانیں آپس میں ٹکرا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ماں بیٹی میں مقابلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس کے ہاتھ میرے مموں پر آگئے ۔۔۔آج ممے بھی پورے جوبن پر تھے ۔۔۔۔۔پہلے سے زیادہ باؤنس ہوتے ہوئے اور خوشی سے جھوم رہے تھے ۔۔۔صوفیہ تیزی سے اس کا دودھ نکالنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔میں نے سوچا کہ میری تو رات باری آ رہی ہے ۔۔۔۔کیوں نہ صوفیہ کو ابھی فارغ کر دیا جائے ۔۔میں نے صوفیہ کو اٹھنے کاکہا اور سیدھا اپنے لیٹنے کا کہا ۔۔۔اب باتھنگ ٹب میں پہلے میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔میر ی ٹانگیں پھیلی ہوئی تھی اور ان کے درمیان میری بیٹی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ٹب سے تھوڑی ٹیک لگا کر اپنا سر اٹھا دیا اورصوفیہ کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا ۔۔۔۔۔میں نے ٹب سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور صوفیہ نے مجھے پر۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی گردن کوپیچھے سے چومتے ہوئے اس کی دونوں سنگتروں کو تھام لیا ۔۔اور تیزی سے مسلنے لگی ۔۔۔۔۔۔صوفیہ کی آہیں باتھ روم میں بھرنے لگیں ۔افف امی ۔۔۔آہ امی ۔۔۔آہ۔۔میں اپنے ہاتھ سے اس کے مموں کو جڑکی طرف سے دبوچتی اور آہستہ آہستہ نپلز کی طرف لاتی ۔۔۔جیسے دودھ باہر کو نکال رہی ہوں ۔۔۔۔صوفیہ اب بہت گرم ہو چکی تھی ۔۔نیچے سے اس کی ٹانگیں بار بار اٹھ رہیں تھیں ۔۔۔میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اس کی ٹانگوں کے اندر رکھ کر اسے قابو کر لیا اور دوبارہ سے اس کے مموں کو مساج شروع کردیا ۔۔۔۔۔اب میں ایک ہاتھ سے اس کی دونوں مموں کو مسل رہی تھی اور ایک ہاتھ نیچے بڑھ کر اس کے پیٹ اور ناف پر پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ افف امی ۔۔نیچے آگ لگ رہی ہے ۔۔۔۔وہ زیادہ اچھل کود کرنے لگی تو میں نے ہاتھ اور بڑھا کر کر اس کی چوت کے لبوں پر رکھ کر اسے سہلانے لگی ۔۔۔۔اس کے دونوں لب آپس میں ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے ابھی تک کنواری ہو ۔۔۔۔میں نے اس کی چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔اس کی آہیں اب بڑھ چکی تھیں ۔۔۔افف ۔۔آہ ۔۔۔۔ساتھ ساتھ وہ ٹانگوں کو بھی اوپر اچھا ل رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ۔۔۔۔اپنی بڑی انگلی اس کی چوت میں داخل کردی ۔۔۔صوفیہ کے منہ سے ایک سسس نکلی ۔۔۔آہ ۔۔۔امی کیا کردیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر زبان باہر کو نکال کر میری طرف مڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔جیسے چاٹنا چاہتی ہو ۔۔۔میں نے بھی اپنی زبان نکال کر اس سے ٹکرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں زبانوں کی لڑائی جاری تھی اور وہاں میری انگلی اس کی چوت میں پھنستی ہوئی گھس رہی تھی ۔۔۔۔۔ابھی تک اس کی چوت بہت ٹائٹ تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی اندر ڈآل کر انگوٹھے سے چوت کا دانہ مسلنا شروع کر دیا ۔۔صوفیہ کی ایک اور آہ نکلی ، اس نے اپنی پیٹھ سے مجھے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔۔اور پھر آہیں بھرنے لگیں ۔۔۔۔۔میں بھی اپنی انگلی کی حرکت تیز کرنے لگی۔۔۔۔۔اس کی آہیں اب اور بلند ہو چکی تھی ۔۔۔۔اور پھر ایک زور دار چیخ کے ساتھ وہ فارغ ہونے لگی ۔۔اس کے جسم مستقل جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔میں تھوڑی دیرتک انگلی اند رباہر کرتی رہی ۔۔۔۔صوفیہ اب پلٹ کر پھر مجھے سے لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔وہ بہت بے صبری سے میرے پورے چہرے کو چوم اور چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔امی آپ کتنی اچھی ہیں ۔۔میرا کتنا خیال رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے خود سے اٹھایا اور کہا کہ چلو اٹھو اب ٹائم کم ہے ۔۔تمہارے ابو ابھی آتے ہیں ہوں ۔۔گے وہ بھی جلدی سے اٹھی ۔۔۔باتھنگ فوم اٹھا کر مجھ پر شرو ع ہوگئی ۔۔۔۔پیچھے پوری کمر اورآگے سے چھاتیاں ، ٹانگوں کے درمیان سے ہر جگہ سے مجھے چمکا دیا تھا ۔۔۔۔میں نے ایک بار پھر پانی بہا کر اندر آگئی اور ۔۔۔۔صوفیہ نے میری بلیک بلاؤز اور پینٹی نکال لی تھی ۔۔۔بڑے چاؤ سے وہ مجھے پہنانے لگی ۔۔۔بلیک بلاؤز کے ساتھ سرخ رنگ کا لہنگا تھا ۔۔۔اور ساتھ ہی لال رنگ کا دوپٹہ ۔۔۔۔بلاؤز مجھے قدرے تنگ تھا ۔۔۔۔کافی سال پہلے کا جو تھا ۔۔۔صوفیہ نے کسی طرح مجھے وہ پہنا ہی دیا تھا ۔اس کے بعد اس نے میرے بال بھی ایک ریڈ پراندے میں باندھ دیے کچھ دیر بعد جب میں نے شیشے میں دیکھا تو حیراں رہ گئی ۔۔میرے آدھے سے زیادہ ممے باہر کی طرف ابھرے ہوئے ۔۔۔۔خوب موٹے موٹے ۔۔۔اور باہر کی طرف دائرے بناتے ہوئے ۔۔۔۔اس بلاؤز پر کافی سارے جھانجھر سلے ہوئے تھے ۔۔۔اور چلتے ہوئے جیسے ممے باہر کو باؤنس کرتے ، ویسے ہیں چھن چھن کی آوازیں بھی گونج جاتیں تھی ۔ صوفیہ نے کاجل اور لپ اسٹک لگا کر میرے حسن کو اور چمکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے ایک پائل نکال کر وہ بھی میرے پاؤں میں باندھ دی تھی ۔۔اب میں چلتا پھرتا ہتھیار بن چکی تھی ۔۔۔۔۔اور راجہ نے آج جو حال کر ناتھا ، وہ بھی مجھے ہی پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں کمرے میں بیڈ کے درمیان بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے کہا کہ ابھی آتی ہوں ۔۔۔اور نیچے کچن سے دودھ اور میوہ جات سے بھر ا ہو گلا س لے آئی ۔۔۔یہ میری پیاری امی کے لئے ۔۔۔۔۔۔جلدی سے پی لیں ۔۔۔۔ابو اورراجہ بھی آنے والے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔میں اس کی طرف مسکر ا کر دیکھا اور گلاس منہ سے لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس نے میرے گالوں پر کس کی اور نائٹ بلب آن کرتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے کوئی گیارہ بجے ہوئے تھے۔۔۔۔کوئی دس منٹ بعد ہی صوفیہ کے ابو اندر داخل ہوئے اور کسی اور کو بھی اندر آنے کا کہا ۔۔۔۔جو کہ راجہ ہی تھا ۔۔۔۔ اس کے بعد دروازہ اندر سے بند کر لاک کردیا ۔۔۔۔۔۔دروازہ بند ہونے کے آدھا گھنٹا بعد ہی صوفیہ نے ہی دروازے پر آ جانا تھا ۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو آ کر میرے سیدھے ہاتھ پر بیٹھ چکے تھے ۔۔۔۔۔وہ بھی حیرانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔۔شادی کے اتنے سالوں بعد ہمارا ملاپ ہونے جا رہا تھا ۔۔اور انہوں نے کافی عرصے سے مجھے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔کبھی بھابھی کے کمرے میں جاتے تھے اور کبھی باہر ہی منہ مارتے تھے ۔۔۔آج کے بعد میرا شوہر ہمیشہ میرا ہونے جا رہا تھا ۔۔۔ ان کے ابو نے اب میرے ہاتھ تھا م لئے تھے اور اس سہلا رہے تھے ۔۔۔راجہ اب تک کھڑا تھا ۔۔۔۔بڑی معصومیت سے ۔۔۔۔جیسے اس سے زیادہ شریف کوئی نہ ہو ۔۔۔۔۔مگر وہ کیا تھا یہ ابھی تک ان کے ابو کونہیں پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے انہیں کہا کہ بیٹا آ جاؤ ، اوپر سکون سے بیٹھو ۔۔۔۔راجہ بھی اوپر آ کر میری بائیں طرف بیٹھ چکا تھا ۔۔۔۔نبیل نے میرے سیدھا ہاتھ لے کر اسے چومنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے بھی ان کی نقل کی اور دوسرا ہاتھ تھا م کر چومنے لگا ۔۔۔۔میں نے ہلکی سی نظر اٹھائی ۔۔۔وہ بہت ہی پر جوش تھا ۔۔اور بڑے ہی شرارتی انداز سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میں بھی شرمانے لگی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے میری ہاتھ کی انگلی لے کر اپنے منہ میں ڈال لی اور چوسنے لگا ۔۔۔۔۔میرے پورے جسم میں بجلیاں سی کوند رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔اور چوت ابھی سی گیلی ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو نے بھی انگلیاں چوسنی شروع کر دی تھیں ، لگتا ہے آج کی رات راجہ ان کو بہت کچھ سکھانے والا تھا ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو کا دوسرا ہاتھ اب میری رانوں کے اوپر حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میرے جسم کی آگ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔اور ایسا لگ رہا تھا کہ میں بہت جلدہی فارغ ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔نبیل نے میری ایک ٹانگ سیدھی کر لی تھی ۔۔۔۔۔اور لہنگا سے ہاتھ اندر ڈال کرٹانگوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے اوپر کیطر ف حملہ اور ۔۔۔۔اور میرے موٹے اور باہر کو نکلنے کو بیتاب مموں کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔یہ ممے وہ پچھلی رات والے ہرگزنہیں تھے ۔۔ جوش میں پہلے سے زیادہ تنے ہوئے اور اور باہر کو نکلنے کو بری طرح مچل رہے تھے ۔۔۔۔راجہ نے بھی اب میری ٹانگ سیدھی کر کے ایک ہاتھ اندر ڈال دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک ٹانگ پر نبیل کا ہاتھ اور دوسری پر راجہ کا ۔۔۔اور میں دونوں کا ٹچ الگ الگ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مجھے کھینچ کر لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔نبیل کی آنکھوں میں دودھ کی پیاس تھی ، وہ اوپر کیطرف آ گئے اور راجہ نیچے کی طرف جا کر دونوں ہاتھو ں سے میری ٹانگوں کا مساج کر رہاتھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے اب ایک ہاتھ میرے مموں پر رکھ کر میرے چہرے پر جھک چکے تھے ۔۔افف کتنے عرصے یہ چاہ تھی اور آج پوری ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔ان کے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں سے ٹکرائے تو ہم دونوں کوایک جھٹکا لگا ۔۔۔۔اور اس کے بعد تو وہ میرے ہونٹوں پر پل پڑے تھے ۔۔۔بھنبھور رہے تھے ، کاٹ رہے تھے ۔۔۔ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ میرے دودھ کو تھام رہے تھے ۔۔۔۔۔ہلا رہے تھے ، ۔۔۔گرما رہے تھے ۔۔۔۔۔۔راجہ اب ٹانگوں سے آگے بڑھ کر رانوں پر آچکا تھا ۔۔۔۔اس نے پورا لہنگا اٹھا کر کمر تک اٹھا دیا تھا ۔۔۔اور اپنے زبان اور ہونٹوں سے پوری رانوں کو چمکانے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو جیسے ہی سانس لینے کے لئے اپنا منہ ہٹاتے ، بے اختیار میری ایک آہ نکلتی اور پور ے کمرے میں گونج جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیل نےاب میری زبان اپنے منہ میں لے کر چوسنی شروع کر دی ۔تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایک ہاتھ ان کے کمر پر سہلا رہی تھی ۔۔۔۔اوردوسرے ہاتھ سے راجہ کے سر کو ،،،، جو پوری شدت سے میری رانوں کو دبوچ رہا تھا ۔۔چوم رہا تھا ۔۔۔چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔گلاب کی خوشبو سے مہکتی ہوئی میری ران اسے بھی گرم کر رہیں تھی ۔۔۔۔۔نبیل نے اب مجھے اٹھا کر بٹھانا چاہا ۔۔۔اور میرے بلاؤز کی ڈوری کھولنے لگے ۔۔۔۔۔میں نے ان کی مدد کی اور تھوڑی ہی دیر میں مہکتی ہوئے دودھ کی دکانیں سامنے تھی ۔۔۔۔۔میں نے صوفیہ کے ابو کو بھی کہا کہ آپ بھی قمیض اتار دیں ۔۔انہوں نے بھی جھٹ کہنا پورا کر دیا ۔۔۔۔۔اب ہم دونوں اوپر سے بالکل ننگے تھے ۔۔۔۔۔۔میرے ممے نائٹ لائٹ میں چمک رہے تھے ، مہک رہے تھے ۔۔۔۔صوفیہ کے ابو کی اب بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں اور چہرے کو لے کر میرے اوپر ٹوٹ چکے تھے ۔۔۔۔میرے سر کے نیچےدو تکیے رکھے ہوئے تھے اور میں کبھی ان کے ابو کو دیکھتی اور کبھی ۔۔۔راجہ کی طرف ۔۔۔۔جو ابھی تک رانوں کو چاٹ رہا تھا ۔۔اور اب میری گیلی چوت کو مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔نبیل کی حرکتیں اس بچے جیسی تھی جسے بہت عرصے بعد اس کاپسندیدہ کھلونا ملا تھا ۔۔وہ پوری شدت سے ان موٹے موٹے مموں کو مسل رہے تھے ۔میری آہیں تھیں کہ گرما گرم ۔۔شہوت سے بھری ہوئی آہ۔۔۔۔امم۔۔اففف۔۔آہ ۔۔۔مدہوشی کا ایساعالم تھا کہ میں بے ہوش ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے اب میرا لہنگا بھی اتار دیا تھا ۔۔۔اور پینٹی کو نکالنے کےدرپے تھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے اپنا سارا تھوک میرے مموں پر پھیلا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور اب اس چاٹنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی انہوں نےا پنی شلوار کا ناڑہ بھی کھول دیا ۔۔۔۔اور ایک ہاتھ سے اتار کر نیچے کی طرف پھینک دی ۔۔۔۔میں نے ان کی یہ حرکت دیکھی تو ایک ہاتھ بڑھا کر ان کا لن تھا م لیا ۔۔۔۔۔گرمی میں تپا ہوا اور سختی پر آمادہ ۔۔۔۔۔۔جیسے جیسے میرے ہاتھ کا ٹچ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ کھڑا ہو کر سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔او ر پھر صوفیہ کے ابومیرے اوپر آ گئے ۔۔میرے مموں کو آپس میں جوڑ دیا اور اس کے درمیاں اپنے موٹا اور لمبا لن گھسا دیا ۔۔۔۔کالے رنگ کا یہ لن میرے تھوک سے گیلے ہوئے مموں کے درمیان کسی پسٹن کی طرح حرکت کر رہا تھا۔۔۔۔میں نے بھی اپنا منہ تھوڑا سا نیچے کر اوپر آنے والے لن کیطرف منہ کر دیا ۔۔اب وہ لن کو آگے کو دھکیلتے تو اگے سے میرا منہ اس کا استقبال کر اپنے اندر بھر لیتا ۔۔۔۔۔۔راجہ بھی اب بے چین نظر آ رہا تھا ۔۔شاید اپنا لن نکالنے کا ارادہ کر رہا تھا ۔۔مگر میری توجہ تو اپنےشوہر کی طرف تھی ۔۔۔۔۔۔نبیل نے اب بالکل ردھم بنا لیا تھا ۔۔۔۔۔وہ تیزی سے جھٹکے مار رہے تھے ۔۔اور لن مموں کے درمیاں سے ہوتے ہوئے میرے منہ میں جا رہا تھا ۔۔۔۔اور ادھر راجہ نے اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا تھا ۔۔۔میرے منہ سے ایک زور دار آہ نکلی اور اور میں نے اپنی کمر کو اچھال دیا تھا ۔۔۔اس کے بعد راجہ نے بالکل رعایت نہیں دی ۔۔۔اس نے اپنی زبان اندر چوت کو اند ر گھسا دی تھی ۔۔۔اور بہت غصے سے اندر باہر کر رہا تھا ۔۔۔۔باہر سے اس کی انگلی اور انگوٹھا میری چوت کے دانے کو مسل اور کھینچ رہا تھا ۔۔۔۔قریبا پانچ منٹ تک وہ ایسے ہی کرتا رہا ۔۔۔ادھر صوفیہ کے ابو کے جھٹکے بھی بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔لگتاہے دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہونے والے تھے ۔۔۔۔۔۔اور پھر ایک جھٹکے سے نبیل نے اپنا پانی میرے مموں پر نکال دیا اور ساتھ ہی میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔راجہ نے منہ ہٹا کر اپنی دونوں انگلیاں اندرڈال رکھیں تھیں۔۔۔۔۔اور آگے پیچھے کرنے لگا تھا ۔۔۔صوفیہ کے ابو نے اب اپنا لن دوبارہ میرے منہ میں ڈال دیا تھا ۔۔۔اور میں دوبارہ سے اسے سخت کرنے لگی ۔۔۔میرا ایک ہاتھ ان کی بالز پر گھوم رہا تھا جو ایک بار پانی چھوڑنے کے بعد دوبارہ سے بھرنے لگی تھی ۔۔کچھ ہی دیر میں نبیل کا لن دوبارہ سے تنا ہوا تھا اورمیری چوت میں گھسنے کو تیار تھا ۔۔میں ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں شہوت اور میر ی محبت ٹھاٹھے مار رہی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ ان کے موڈ کو سمجھ چکا تھا ۔۔ویسے بھی یہی بہتر تھا ورنہ راجہ کے لئے مشکل ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے کہا کہ چاچا آپ نیچے آ جائیں ۔۔۔۔نبیل بھی نیچےکوکھسک چکے تھے ۔۔۔انہوں نے میری بھر ی بھری رانوں کو چوما اور پھراٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دیں ۔۔میں ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔راجہ میرے الٹے ہاتھ کی طرف بیٹھا میری اٹھی ٹانگیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھ بڑھا کر اپنے چاچا کا لن تھا اور چاچی کی چوت پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔میری چھاتیا ں بھی اوپر کی طرف کھڑی ہو کر نظارہ کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔نبیل نے میری آنکھوں میں دیکھا اور ایک زوردار جھٹکا مارا ۔۔۔۔میرے منہ سے ایک زور دار سسکی نکلی ۔۔۔سسسس۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔۔۔افف۔۔۔۔راجہ بھی فل گرم ہو ا وا تھا ۔۔۔وہ میرے اوپر جھک کر میرے ممے چوس رہا تھا اور ساتھ ہی ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت کو دانے کو مسل رہا تھا۔۔۔۔۔نبیل نے ایک اور زوردار جھٹکا مارا اور میں اوپر نیچے سے لرز کر رہ گئی اور ایک زبردست لذت بھری آہ نکالی ۔۔۔۔جو کہ باہر کھڑی صوفیہ نے بھی سنی جو اپنے امی کو اپنے ابو کے نیچے لیٹے ہوئے بڑے شوق سے چدتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔راجہ نے اب میرے مموں کو نوچنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔میں اسے آنکھو ں ہی آنکھو ں میں تسلی دے رہی تھی ۔۔۔کہ تمہار ا نمبر بھی آئے گا ۔۔۔نبیل کے جھٹکے اب ردھم میں آ چکے تھے ۔۔۔میری آہوں او ر سسکیوں کے ساتھ میرےپاؤں میں بندھی پائل بھی کھنک رہی تھی ۔۔۔۔۔شاید وہ بھی میری چوت کی طرح فل مزے میں تھی ۔۔۔۔نبیل کے ہر دھکے کے ساتھ میرے میرے ممے راجہ کے منہ سے نکل کر اوپر کی طرف لپکتے ۔۔۔جسےراجہ پھر پکڑ کر واپس لاتا ۔۔۔۔۔۔مگر نبیل کے دھکوں نے بھی قسم کھائی تھی کہ راجہ کو ممے چوسنے نہیں دینے ۔۔۔آخر میں ان کی بیوی تھی ۔۔۔کسی اور کاحق تھوڑی تھا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔نبیل اور راجہ کے درمیان لڑائی جاری تھی ۔۔۔۔دونوں ہار ماننے کو تیار نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔اور پھر نبیل بھی فل جوش میں آگئے ، ان کے جھٹکے مجھے اندر بچہ دانی پر محسوس ہورہے تھے ۔۔۔میری آہیں بڑھتی جا رہیں تھی ۔۔آہ ۔۔۔آہ۔۔۔افف۔۔امم ۔۔راجہ ہارنےلگا تو نیچے سے ہاتھ ہٹا کر میرے دونوں ممے تھا م لئے اور اب باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میری تو یہی خواہش تھی کے دھکے ایسے ہوں کہ راجہ بھی ساتھ اٹھتا جائے ۔۔۔اور شاید نبیل بھی یہی سوچ کر دھکے پر دھکے لگائے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔پورا کمرہ میرا آہوں سے گونج رہا تھا ۔۔۔۔۔اور نبیل کے پسینے نکلنے لگے تھے ۔۔۔ساتھ ساتھ میری چوت اور ان کے لن کی گھسٹنے کی آواز چپ چپ کر بلند ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے راجہ کو ہٹانے کی کافی کوشش کی تھی مگروہ تھا کہ میرے مموں سے چپک سا گیاتھا ۔۔۔۔۔آخر نبیل نے رکتے ہوئے کہا کہ گھوڑی بن جاؤ ۔۔۔۔میں تھک گیاہوں ۔۔۔۔راجہ بھی اٹھ سا گیا تھا ۔۔۔اس کی آنکھیں سلگ رہی تھی ۔۔۔میں نے اسے آنکھوں آنکھوں میں تسلی دی اور الٹی ہو کر گھوڑی بن گئی ۔۔۔۔۔میرا جسم اب میرے ہاتھ اور گھٹنے کے بل پر تھا ۔۔۔۔اورکمر تھوڑی نیچے کو جھکتی ہوئی، اور
اندر کی طرف کو دائرہ بناتی ہوئی میرے

چوتڑ کو اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔۔اور چوتڑ اوپر کر خوب اٹھی ہونے کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب بھی پورے طریقے سے پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور یقینا صوفیہ کے ابو کا جوش اب پہلے سے زیادہ بڑھ چکا تھا۔۔جس کا اندازہ پہلے ہی جھٹکے سے ہوا تھا۔۔۔۔ میں ایک چیخ مار کر بری طریقے سے آگے کو گری تھی ۔۔۔راجہ بھی سائیڈ پر ہو گیا تھا جیسے کہ رہا ہو کہ اور مرو ۔۔۔۔۔۔ میں اٹھی اوردوبارہ سے پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔اور پیچھے مڑ کر اشارہ کیا کہ اب کریں ۔۔۔اس کے بعد نبیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیا ں بلند ہونے لگے تھی۔۔۔۔۔۔ادھر راجہ بھی اپنی قمیض اتار چکا تھا ۔۔۔۔۔۔شاید کچھ ہی دیر میں اس کا ہتھیار سامنے آنے والا تھا ۔۔۔۔میری آہیں اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔نبیل بھی بڑھ چڑھ کر جھٹکے دے رہے تھے ۔۔۔۔۔اور میں خو د کو بخوبی سمبھال پا رہی تھی ۔۔۔۔ان کے جھٹکے تیز سے تیز ہوتے جا رہے تھے ۔۔صاف لگ رہا تھا کہ فارغ ہونے والے ہیں اور میرا بھی یہی حال تھا کہ کچھ ہی دھکوں کی مار تھی ۔۔۔۔اور پھر یہی ہوا ایک زور دار جھٹکے سے میں پھر آگے کو گری اور وہ بھی میرے اوپر ۔۔۔۔ہم دونوں ہی جھٹکے کھا رہے تھے اور فارغ ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ادھر راجہ نے اپنی شلوار اتار دی تھی۔۔۔۔۔اس کا غصہ صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تک ہم جھٹکے کھا تے رہے او ر پھر وہ آگے کو ہو کر میرے برابر میں لیٹ گئے ۔۔۔۔۔۔پورے کمرے میں ایک دل آویز سے بو پھیل چکی تھی ۔۔میرا اور ان کا پانی دونوں مل کر بیڈ پر گرے ہوئے تھے ۔۔۔کچھ دیر تک ہم دونوں ایکدوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ہے ۔۔محبت واپس آ رہی تھی ۔۔۔۔۔چاہت اپنا رنگ جما چکی تھی ۔۔۔۔۔راجہ کا یہ احسان تو تھا مجھ پر ۔۔۔۔اور اب یہ احسان اتارنے کا ٹائم بھی آ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے شلوار اتارکر اپنا ہتھیار تھام لیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ سہلاتا ہوا میرے قریب آ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔میں تھکی ہوئی تو تھی ۔۔مگر اصل امتحان تو اب شروع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ کا ہتھیار فل تنا ہوا تھا ۔۔۔اسے کسی چوسائ کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔۔میرے ممے کی طرح اس کا ہتھیار بھی آج پورے جوش میں لہرا رہا تھا ۔۔۔۔نبیل میرے برابر میں لیٹے سانس برابر کر رہے تھے کہ ۔۔۔۔۔ راجہ میری ٹانگو ں کے درمیان بیٹھ گیا۔۔۔میں اس کے بازو پر ہاتھ رکھے التجائیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اور وہ سلگتی ہوئی نگاہوں سےمجھے گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے میری چوت کے برابر اپنے پاؤں رکھے اورمیری ٹانگوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر مجھے اپنی گود میں سوار کر لیا ۔۔۔اس کاہتھیار جیسے ہی میرے پیچھے ٹچ ہو ا۔۔۔میں ایک دم اچھل گئی تھی ۔۔۔گرم اور سخت لوہے کی راڈ کی مانند تنا ہوا تھا ۔۔۔۔میں روہانسی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔نبیل کو بھی کچھ نہیں کہ پا رہی تھی ۔۔۔کہتی بھی تو کیا کہتی ۔۔۔۔اور ادھر میری بیٹی میری حالت دیکھ کر کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کی انگلیاں بھی شاید چوت میں ڈلی ہوں گی ۔۔۔۔۔میں نے کوشش کی کہ راجہ کے سینے کے طرف بیٹھوں تاکہ اس کے ہتھیار سے فاصلہ زیادہ سے زیادہ ہو جائے ۔۔۔اتنے میں نبیل بھی لپک کر آگئے تھے ۔۔انہیں اب نظر آیا تھا کہ یہ گھوڑے کا لن ان کی بیوی کے اندر گھسنے جا رہا تھا ۔۔۔۔پہلے وہ راجہ کی طرف گئے ۔۔۔راجہ بیٹا یہ کیا ہے ۔۔۔۔اتنا بڑا ۔۔شاید انہیں فوزیہ کی امی کی چیخیں اب دوبارہ سنائی دی ہوں گی ۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔راجہ نے اب اپنا ٹوپا میری چوت کے نیچے ٹکا دیا تھا ۔۔۔۔اس کےپہلے جھٹکا ہی ایسا تھا کہ میری لرزہ خیز چیخ گونج گئی ۔۔۔۔۔ایسا لگا تھا جیسے کوئی خنجر اندر جا گھسا ہے ۔۔۔۔۔۔میں اٹھنے لگی مگر کیسی اٹھتی ۔۔۔میری دونوں ٹانگیں راجہ کے ہاتھ میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔نبیل مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ترس بھری نگاہوں سے ۔۔۔۔پھر میرے پیچھے آگئے اور میری کمر پر ہاتھ پھیر نے لگے۔۔۔۔۔بس نازیہ تھوڑی دیر ہے ۔۔۔تھوڑا برداشت اور کر لو ۔۔۔۔راجہ کا ٹوپا اندر گھس چکا تھا ۔۔اس نے سمبھل کر دوسرا جھٹکا مارا اور ایک انچ گھسا دیا ۔۔۔میں دوبارہ سے کراہی ۔افف۔۔۔۔امی ۔۔مر گئی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔۔راجہ کا لن اسقدر بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ باہر آنے کو بھی مشکل ہو رہی تھی ۔۔۔راجہ نے وہیں رکے ہوئے ایک جھٹکا اور دے مارا۔۔۔۔میں پوری قوت سی اس کی سینے پر گری تھی ۔۔۔۔۔میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے ممے اس کے سینے سے ٹکرائے تھے۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے مجھے تھاما ۔۔اور دوبارہ سمبھال کر میرے چہرے کو چومنے لگے جہاں پسینہ چمکنے لگاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ا ن کی مجھے سے محبت اب ظاہر ہورہی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ بےاختیار چوم رہے تھے ،اور تسلی دے رہے تھے ۔۔۔بس نازیہ تھوڑا سا باقی ہے ۔۔بس تھوڑا درد اور ہو گا۔۔۔کچھ اور برداشت کر لو ۔ان سے زیادہ تو مجھے پتا تھے کہ کتنا اندر گیا ہے اور کتنا باقی ہے۔۔راجہ بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل دباؤ ڈالے جا رہے تھا ۔۔۔اور اس کے ہتھیار کا ٹوپا اندر قیامت مچاتا ہوا گھسا چلا رہا تھا۔۔۔۔ راجہ کافی اندر تک گھسا چکا تھا ۔۔۔اب وہ اپنے سینے سے مجھے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔اگر یہ گیپ کم ہوتا تو ابھی آدھالن ابھی باہر تھا ۔۔جو میرے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔میں نے صوفیہ کے ابو کو پیچھے ہٹا یا ۔۔۔اور راجہ سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔اس کے سر کو میں نے اپنی چھاتیوں میں دبا لیا تھا ۔۔۔کہ اس کا غصہ کم ہو جائے ۔۔۔۔راجہ نے ٹوپے تک باہر کھینچ کر دوبارہ ایک جھٹکا مارا ۔۔۔اور میں ایک مرتبہ پھر چیخ اٹھی ۔۔۔افف میں مر گئی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔نبیل ابھی بھی پیچھے سے میری کمر کو چوم رہے تھے اور تسلیاں دے رہے تھے ۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ راجہ کو ہی رکنے کا کہ دیں ۔۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار راجہ نکل رہاہے ۔۔راجہ بس۔۔۔میرے راجہ ۔۔۔راجہ بس کرو ۔۔۔راجہ اب وہیں رکا ہوااندر باہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور مجھے صاف لگ رہا تھا کہ چوت بری طریقے سے چر رہی تھی اور واپس مل رہی تھی ۔۔۔۔۔نبیل کو پتا نہیں کیا سوجھی وہ مجھے راجہ کے اوپر سے اٹھانے لگے۔شاید منہ پر سے پسینہ پونچھنا چاہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور راجہ نے اسی وقت ایک جھٹکا اور مارا ۔میں کچھ انچ اور دھنس چکی تھی۔۔۔اور اب میری چیخیں اب رکنے کا نام نہیں لے رہی رھی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔افف۔۔۔میں مر گئی ۔۔۔۔۔اوہ ۔۔آہ ۔۔۔۔۔راجہ بس ۔۔۔۔۔میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔اوئی ۔۔۔راجہ اب میری ٹانگوں کو اٹھا کر مجھے نیچے لٹا چکا تھا ۔۔۔۔۔ایک پاؤں وہ بائیں طرف نکال چکا تھا اور دوسرے پاؤں کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنا ٹوپا باہر نکال کر ایک مرتبہ پھر میری لرزتی کانپتی چوت کے سر پر رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔نبیل کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی تھی یہ سب کیا ہوا ۔۔۔۔اب وہ مجھے ہی تسلیاں دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نےآگے کو بڑھے کر ٹوپا اندر گھسا دیا ۔۔۔میں اوپر ہو کر درد سے کراہی ۔۔۔۔۔۔۔افف ۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔اور یہ نبیل کو بھی پتا نہیں کیا ہونے لگتا ہے ۔۔۔وہ میرے اوپر جھک کر میرے میرے دونوں ہونٹوں کو چوسنے اور اپنے منہ میں بند کرنے لگے ۔۔۔۔اور نیچے راجہ کو کھلی آزادی ملی ۔۔۔اس نےایک مستقل پریشر لگا کر 9 انچی تک لن اندر گھسا دیا تھا ۔۔۔دو تین انچ ہی اب باہر تھا ۔۔۔۔میں بری طریقے سے تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔مجھے اپنی آخری رات یہ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔اپنی چوت کے درمیان مجھےایک آگ میں جلتا ہوا لوہے کا راڈ لگ رہا تھا ۔۔۔۔جو آگے پیچھے ہو کر چوت کے دونوں سروں کو پھاڑ نے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔۔۔میری تڑپ بری طریقے سے بڑھ رہی تھی اور سسکیا ں اور کراہیں نبیل کے منہ میں دم توڑ رہی تھی ۔۔۔۔اور نیچے سے راجہ دھکے پر دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ پوراہتھیار باہر نکالتا اور 9 انچ دوبارہ اندر گھسا دیاتا ۔۔۔۔۔۔چوت اتنا درد برداشت کرنے کے بعد اب سن ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔راجہ کی ٹائمنگ کا مجھے اندازہ تھا ۔۔وہ 20 منٹ سے پہلے فارغ نہیں ہوتا ۔۔اور ابھی تک صرف 7 سے 8 منٹ ہی ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ اب پوری شدت سے پورے پورے جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔اور میری کراہیں بری طریقے سے میرے منہ سے نکل رہی تھی ۔۔اب میں کافی حد تک راجہ کا لن سمبھال چکی تھی ۔۔۔۔چوت چر توچکی تھی مگر اس کا لن اپنی جگہ بھی بنا چکا تھا ۔۔۔۔کسی پسٹن کی طرح اس کا لن چسس کی آواز نکالتا ہوا اندر گھستااور پھر واپس ٹوپے تک باہر آتا اور دوبارہ سے گھس جاتا تھا ۔۔۔۔میری سمبھلی حالت دیکھ کر نبیل سائیڈ پر اتر چکے تھے ۔۔۔۔اور ان کا لن بھی اب سنسنا رہا تھا ۔۔۔آخر ان کی بیوی ان کے بھتیجے کے نیچے تڑپ رہی تھی اور یہ سب انہی کی حرکتوں کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔نبیل نے اپنا لن سہلانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ تیار ہو چکا تھا ۔۔۔۔راجہ کی طرف انہوں نے کچھ دیکھا ۔۔۔۔اور راجہ میری ٹانگیں اٹھائی دوبارہ سے کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں اپنی ٹانگیں اس کی کمر کے گرد لپیٹ چکی تھی اور گردن پر اپنے ہاتھ سے سے دائرہ بنا لیا ۔۔۔۔۔۔۔راجہ پر مجھے بے حد پیار آ رہا تھا ۔۔میں اس کا کافی حد تک لن لے بھی چکی تھی اور سہہ بھی ۔۔اور اب اسے میرے ہاتھوں سے فارغ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔نبیل مجھے مزے سے آہیں بھرتے ہوئے دیکھ رہے جس کے درمیان کراہ بھی گونج اٹھتی تھی ۔۔۔افف۔۔آہ۔۔۔سسس۔۔۔ وہ بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ چکے تھے ۔۔۔۔اور ویزلین کی ڈبی لے کر واپس آچکے تھے ۔۔۔۔۔مجھے کچھ دیر تک تو سمجھ نہیں آیا ۔۔۔مگر جب ان کی ایک انگلی ویزلین میں لت پت میری گانڈ کے چھید میں گھسی تو میں چیخ اٹھی ۔۔۔۔۔نبیل یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں جانو ۔بس ایک اور نیا مزہ آنے والا ہے ۔۔۔شادی کے اتنے عرصے میں وہ چند بار ہی میرے پاس ہی آئے تھے اور آج ایک ہی رات میں چوت سے گانڈ تک بھی پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔میں بری طریقے سے چلا رہی تھی ۔۔نہیں نبیل میں یہاں نہیں لے سکتی ۔۔۔۔۔پلیز مجھ پر ترس کھائیں ۔۔۔۔وہ مجھے تسلی دے رہے تھے کہ بس آرام آرام سے ہو گا۔۔۔۔پہلے انہوں نے ایک انگلی ڈالی ۔۔۔۔۔۔ویزلین سے پورا چھید بھر چکا تھا ۔۔۔اور میری گانڈ کا چھید کھل رہا تھا بند ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔آگے سے بھی تکلیف کم نہیں تھی ۔۔راجہ کو تنا ہوا لن سیدھ میری بچہ دانی سے ٹکرا رہا تھا ۔۔۔اور میری کراہیں سیدھی اس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔میں اپنے چہرہ اسکے کے کندھے پر ڈال کر بے حس سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں مجھے لگا کہ شاید دوانگلیاں اندر گھسی ہیں اور پھر وہ اسے بھی اندر گھمانے لگے ۔۔۔کچھ دیر میں گانڈ کا چھید نرم ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔باہر بیٹی اپنی ماں کی حالت دیکھ رہی تھی جو اب بے ہوش ہونے قریب تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی نے تو دودھ پلا کر تیار کیا تھا ۔۔۔۔۔نبیل نے اب آدھی ویزلین اپنے لن پر مل لی تھی ۔۔۔۔۔اور اس کے بعد وہ میرے قریب آگئے ۔۔۔۔اور میری کمر کو چومنے لگے ۔۔۔میں کچھ ہوش میں آئی تو انہوں نے مجھے اپنے سینے پرٹیک لگوادی ۔۔۔اب میری ٹانگیں راجہ کے بازووں میں اور نبیل کے سینے پر ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔نبیل نے دونوں ہاتھوں سے میرے تنے ہوئے ممے تھام لئے جو اچھل اچھل اب تھک چکے تھے ۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ ممے مسلتے رہے اور پھر ایک ہاتھ نیچے کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔میں بری طریقے سے کراہ اور تڑپ رہی تھی ۔۔مگروہاں میری کوئی سننے والانہیں تھا ۔۔۔ایک بیٹی تھی وہ لاک کمرے کے باہرتھی ۔۔۔۔۔اور نبیل کا لن میری گانڈ کے چھید سے ٹکرایا ۔۔۔۔مجھے صاف اس کی ٹوپی اپنی ٹانگوں کے درمیان لگ رہا تھا اور اور پھر دباؤ بڑھتے ہوئے اس کی ٹوپ نے اندر سر گھسا دیا ۔۔میری ایک درد بھری کراہ نکلی ۔۔۔افف۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر دباؤ بڑھتا گیا ۔۔۔مجھے ایسے لگا کہ گانڈ چیر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس سے خون بہ رہا ہے ۔۔۔میں نبیل کو پیچھے ہٹانے لگی ۔۔۔۔۔مگر وہ کہاں ہٹنے والے تھے ۔۔میرے ناخن پوری قوت سے راجہ کے سینے پر گڑ چکے تھے اس کی بھی ایک کراہ نکلی ۔۔۔اور اس نے ایک جھٹکے سے مجھے اوپر اچھا ل دیا۔۔۔۔۔اور جب میں نیچے آئی تو نبیل اور راجہ دونوں کے موٹے موٹے لن اندر تک پھنس چکے تھے ۔۔۔میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔۔۔راجہ مجھے دیکھ کر رک چکے تھے ۔۔مگر صوفیہ کے ابو اب بھی آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ۔۔ان کا لن پورا ندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔اور برے طریقے سے گانڈ چیرتا ہوا آگے پیچھے کو ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔میں آہیں اور کراہیں اب بلند ہی ہو رہی ۔۔۔آگے سے میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔اور میرااصل دشمن راجہ اب تک اپنے کھڑے ہوئے لن کو تھامے ہوئے کھڑا تھا ۔۔۔۔نبیل کچھ دیر تک آگے پیچھے کرتے رہے پھر وہ بھی فارغ ہو گئے ۔۔۔۔۔شاید میری گانڈ کی تنگ موری نے انہیں جلد ہی پانی جھڑنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔اور پھر وہ اپنا لن نکال کر بیڈ پر ہی لیٹ گئے اور لمبے سانس لینے لگے ۔۔۔۔۔اور راجہ مجھے اسی طرح اٹھا ئے ہوئے بیڈ سے نیچے اتر گیا ۔۔۔۔۔۔وہ مجھے لے کر صوفے پر پہنچا اور مجھے الٹا لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔میرے چوتڑ نبیل کا لن لینےکا بعد اب لال سرخ ہوئے تھے ۔۔اور مٹک مٹک کر مست ہو رہے تھے ۔۔۔۔گولائی میں نکلے ہوئے چوتڑ ہل ہل کر راجہ کو بلا رہے تھے ۔۔۔۔میں الٹی ہو کر لیٹ چکی تھی اور اپنی گانڈ اٹھا کر اونچی پہاڑی بنا چکی تھی ۔۔۔راجہ پیچھے سے آیا تھا ۔۔۔اور بدمست گھوڑے کی طرح اندر گھسا تھا ۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی گانڈکو پھیلایا ہوا تھا ۔۔۔اور میری چوت کی زبردت پٹائی جاری تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ کے دھکے ایسے تھے کہ میں صوفے میں گھسی جار ہی تھی ۔۔اور آہیں تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں تھی ۔۔۔۔۔راجہ کا موٹا سے ٹوپا مجھے اپنے پیٹ میں محسوس ہوتاتھا ۔۔۔اور اس کے زوردار جھٹکے میری مموں کو میرے منہ پر لا کر مارتے تھے ۔۔۔۔۔ادھر نبیل بیڈ پر لیٹے میری ہمت کو سلام دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ان کی بس ہو چکی تھی ۔۔مگر ان کی بیوی کو تو احسان اتارنا تھا دلہے راجے کا ۔۔۔۔۔راجہ کے جھٹکے تھے کہ رکنے کا نام لے رہے تھے ۔۔اب میری بس ہونے لگی تھی ۔۔۔میں بار بار آگے کو گرتی اور وہ دوبارہ مجھے اٹھا تا تھا ۔۔۔۔۔۔میرے آنسو بہ بہ کر خشک ہو چکے تھے ۔۔۔۔راجہ بھی میرے آگے گرنے سے تنگ آ چکا تھا ۔۔۔۔وہ صوفے سے اتر ا اور مجھے گھسیٹ کراپنی طرف کیا ۔۔۔۔میری دونوں ٹانگوں کو کھینچ کر دونوں طرف کر دیا اور دوبارہ سے ٹوپا اندر گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ میری کراہ نکلتی ۔۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ میرا منہ کھل اور بندہو رہا تھا ۔۔۔۔مگر وہ تھا کہ ترس کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔اور میری ٹانگیں اچھے سے چیرنے کے بعد میرے دودھ سے بھرے ممے تھام کر دوبارہ جھٹکے شروع کر دئیے تھے ۔۔۔۔ایک مرتبہ درد سے میرا منہ کھلا تو راجہ نے اپنی انگلیاں اندر گھسا دی اور میں کراہنے کے ساتھ وہ بھی چبانے لگی ۔۔۔۔۔راجہ کےدھکے اب طوفانی ہو چکے تھے ۔۔۔اور ہمارا صوفہ ہل ہل کر الٹنے والا ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔یہی وقت تھا کہ راجہ کا ایک نیا روپ میرے سامنے آیا تھا ۔۔۔۔جب اس کے جھٹکے طوفانی ہو جاتے تھے تو اس کی غراہٹیں بھی نکلنے لگتی تھیں ۔۔۔وہ کسی شیر کیطرح غرا رہا تھا اور دھکے پر دھکا لگا رہا تھا ۔۔۔پورے کمرے میں اب میری کراہوں سے زیادہ اس کی غراہٹ گونج رہی تھی ۔۔۔نبیل بھی ایک دفعہ تو کانپ ہی گئے تھے ۔۔۔راجہ کی غراہٹیں جاری تھی اور نیچے سے طوفانی دھکے ۔۔۔۔۔میں تیسری مرتبہ فارغ ہو چکی تھی ۔۔اور اس کی پہلی باری تھی ۔۔۔۔۔میرا پورا جسم اچھے سے بج چکا تھا ۔۔۔اور اب اس میں کوئی ہمت نہیں باقی تھی۔۔۔بس ایک بے جان سی پڑی میں اسے سمبھال رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر اس کے طوفانی دھکے بڑھنے لگے اور ایک زور دار چنگھاڑ کے ساتھ وہ فارغ ہوا ۔۔۔۔۔اس کاپانی میرے اندر تک جا چکا تھا ۔۔۔پوری چوت بھر چکی تھی ۔۔اورباہر بھی گر رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ جھٹکے پر جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔۔اور کچھ دیر میں یہ شیر تھک کرمیرے اوپر گر چکا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور کپڑے اٹھا کر باہر کو نکلتا چلا گیا ۔۔۔نبیل آئے اور مجھے اٹھانے لگے ۔۔۔میں برے طریقے سے کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔پورا بدن لہرا رہا تھا ۔۔۔۔۔نبیل مجھے سہارا دے کر باتھ روم لے کر گئے ۔۔۔اور گرم پانی سے اچھے سے دھو کر بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔میں چندھیائی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہیں تھی ۔۔پھر وہ نیچے کچن گئے اور دودھ کا گلاس اور پین کلر دینے لگے ۔۔۔۔۔آخر شادی کے بیس سالوں بعد میرا شوہر میرا ہوچکا تھا ۔۔۔۔اس کے لئے میں نے کتنی قربانی دی تھی آپ تو جانتے ہی ہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments