Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

طلاق یافتہ کنواری

 طلاق یافتہ کنواری



ھیلو دوستو یہ میری پہلی انٹری اورپہلی کاوش ہے امید ہے پسند آیگی اور اپنی  آپ بیتی سے ابتداکررہا ہوں
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے میٹرک کرلیا تھا یعنی اسوقت میری عمر اٹھارہ سال تھی ھماری فیملی چھ افراد پر مشتمل ہے پہلے نمبر بڑا بھائ  جسکا نام فیصل ہے
کہانی کے روایت کے مطابق نام مقام چینج ہے
دوسرے نمبر پر بہن جس کا نام سائرہ ہے تیسرے نمبر جناب مابدولت ہیں اور چوتھے نمبر پربہن جسکانام مائرہ ہے اور امی ابو جب میں نے میٹرک کرلیا تھا اسوقت بڑے بھائ کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے اور ایک بچہ ہے جس کی عمر اس وقت ڈھیڑ سال تھی جبکے سائرہ کی شادی کوڈھیڑسال ہو      
چلا تھا اور مائرہ کی منگنی ہوچکی تھی اور شادی ک تیاریاں  ہورہی تھیں اورمیں ان دنوں فار غ تھا ابو سعودیہ میں تھے میں معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں جبکہ بڑا بھائ بس ایویں ہےھمارا گھرانہ نارمل گھرانہ ہےھم لوگ پنڈی کے نواح میں رہتے ہیں سائرہ کا سسرال جہلم میں ہے  ایک دن میں باہر سے گھوم پھر کے گھر ایا تو امی نے کہا ادھر آو امی پریشان سی بیٹھی تھی میں نے کہا امی کیا بات ہے آپ پریشان ہیں بیٹاسائرہ کا فون ایا تھا کہ رہی تھی شہزاد(میرا نام) کو کل میرے پاس بھیجدو (اس وقت موبائل فون نیانیا آیا تھا 3310 1100 وغیرہ تو ابو نے سعودیہ سےدو سیٹ بھجوا دیے تھے ایک سائرہ کیلیے اور ایک گھر کیلیے)امی نے کہا وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی میں بہت پوچھا کہ کوئ پریشانی والی بات تو نہیں لیکن اس نے کہا نہیں ایسی کوئ بات نہیں بس آپ بھا ئ کو میرے پاس بھیج دیں تو امی نے کہا بیٹا تم  کل صبح سویرے بہن کی طرف نکل جاو مجھے لگ رہا کہ پھر شوہر کے ساتھ کوئ گڑبڑ ہوگئ ہے
اس سے پہلے بھی وہ تین چار بار اس طرح روٹھ کے گھر آچکی تھی پھر وہ لوگ آکے معافی تلافی کر کے منا کے لے جاتے مین نے امی کو تسلی دی اور اگلے صبح جہلم جانے کیلیے کوچ میں سوار ہوگیا جانے سےپہلے میں نے فون پر اسے بتادیاتھاکہ میں 7بجے والی گاڑی پر آوں گاجہلم پہنچ کرجیسے  
گاڑی سے اترا ایک دس بارہ سال کا لڑکا میری طرف بڑھا 
کیا آپ کا شہزاد ہے اس نے پوچھا
جی میرا نام میرا شہذاد آپ کون؟
 میرا نام اکرم ہےسائرہ آپی نے آپ کو لینے کیلئے بھیجا ہے
تم نے مجھے پہچانا کیسے
اپ کے سن گلاس کی وجہ سے آپی نے مجھے بتیاہا تھا
اوہ! اصل میں میری عادت ہے کہ جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو سن گلاس لگاتا ہوں چاہے موسم جیسا بھی ہو سوائے بارش کے
" کیوں خیر تو ہے نا باجی ٹھیک تو ہے"
"ہاں خیریت ہے آپی بھی ٹھیک ہے وہ پرسوں شام سے ھمارے گھر آئ ہوئ ہیں "
میں نے کہا کیوں
"مجھے نہیں پتا لیکن میں نے محسوس کیا ہے وہ کچھ پریشان ہیں"
میں نے ذیادا کرید مناسب نہ سمجھی اور اسکا اوراسکے گھر والوں کا حال احوال پوچھتا ہوا گھر چل پرےقریبا"آدھاگھنٹہ پیدل چلنے کے بعداسنے ایک خوب صورت گھر کی طرف اشارہ کرکے بتای کہ یہ ہمارا گھر ہے جس کی چھت پر چاردیواری ڈیزائن کے ساتھ بنی ہوئ تھی گھر  پہنچ کراکرم کی امی نے ہمارا استقبال کیاجو تقریبا" میری امی کی ہم عمر ہیں  میں نے سلام کیا
سائرہ بیٹی دیکھو کون آیاہے آنٹی میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے آواز دی ایک کمرے سے تین لڑکیاں باہر نکل ائین اور انھوں نے بھی سلام کیا
شہزاد  بیٹا یہ میری بیٹیاں ہیں یہ جو سب سے بڑی ہے اسکا نام صائمہ ہے اس سے چھوٹی فائزہ ہے اور ان سے چھوٹی نائلہ ہے وہ تینوں خوب صورت ہیں لیکن جس پر دل آگیا وہ درمیان والی فائزہ ہے وہان دونوں سے زیادہ حسین ہےمیں نے تینوں  کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا لیکن فائزہ کے ہاتھ کو ذرا زور سے دبایا اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مسکرا دی اتنی دیر میں باجی اندر کمرے سے نکلیں اور اتے ہی مجھے گلے لگا لیا اسکے بوبز میرےسینے میں  چھب سے گئے جس سے میرے پورے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا چونکہ ھمارے درمیان ایساویسا کچھ نہیں تھا اس لئے باجی کے علیحدہ ہوتے ہی یہ بات ذہن سے محو ہوگئ ویسے میری باجی کا سائز 38 28 34 ہے جو کہ میرے نقطہ نظر سے بہت ہی سیکسی ہے میں نے باجی سے خیر خیریت پوچھی اتنے میں انٹی نے کہا ارے بیٹا اندر کمرے میں آجاو کیا کھڑے کھڑے خیرت پوچھ رہے ہو تھوڑا ریلیکس ہو جاو پھر باتیں کرو سمجھو یہ تمھارا اپنا گھر ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنی صائمہ کو آواز دیکر کھا بنانے کیلئے کہہ  دیا باجی مجھے اندر کمرے میں لے آئ بھیا یہاں بیٹھ جائیں باجی نے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئ چونکہ میری باجی کے ساتھ بچپن سے ہی بتکلفی تھی لیکن میں نےاسے کبھی بھی نام سے نہیں پکارتا تھا بلکہ باجی ہی کہتا تھا 
"باجی اکرم کہہ رہا تھا کہ آپ پرسوں س یہاں ہو کہیں سسرال میں پھر کوئ مسلہ"
"اسی لیئے تو میں نے تم کو بلایا ہے"باجی نے میری بات     کاٹتے ہوئے کہا  پھر کہنے لگی دیکھو بھائ یہ بات ایسی ہے کہ میں تمھارے سوا کسی سے نہیں کہہ سکتی اور امی ابو کو بھی تمہی نے سمجھانا ہے
 میں سمجھ گیا ہوں  باجی کہ اسنے تمھیں چھوڑ دیا ہے لیکن میں کمینے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا
مجھے اس کمینے پر شدید غصہ آگیا
تم ایسا کچھ نہیں کروگے کیوں کہ باجی کو پتا تھا ایسا کرنا میرے لیئے کچھ مشکل نہیں 
" لیکن کیوں اگر ایسی کوئ بات تھی تو میں آکے سیدھا کردیتا"نہیں مجھے پتا ہے کہ یہ سیدھا ہونے والا آدمی نہیں ہے کہ تم آکے اس کو سیدھا کر لیتے  پہلے میری پوری بات سنومیں نے خوداس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھاکیوں کہ میں روز روز کے بک بک سے تنگ آگئ تھی اور اس نے مجھے اپنا پوراحق دےدیاہے اور میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ تم تو سمجھ بوجھ رکھتے ہو اس لئے امی ابو کو تم سمجھا سکتے ہو کیوں کہ تمھارے ساتھ میرا تعلق دوستوں جیسا ہے
اور تمہیں پتہ ہے کہ میں روٹھ کے میکے کتنی بار آئ ہوں لیکن اس کے علاوہ ہر ہفتے یہی ہوتا تھا لیکن میں یہاں آجاتی پھر کبھی وہ لوگ مجھے منا کے لےجاتے کبھی اس گھر والے بیچ میں پڑ کے صلح صفائ کرالیتے اس اور
 بیٹاہاتھ منہ دھولو کھانا تیار ہے
 باجی کی بات آنٹی کی آواز سے ادھوری رہ گئ 
چلو بھیا کھانا کھاتے ہیں اور پھر جانے کی تیاری کرتے ہیں
ہم دونوں باہر آئے تو دیکھا برآمدے میں دستر خوان لگا ہوا تھا  بیٹھ کے کھانا شروع کیا تو آنٹی نے کہا بیٹا سائرہ کی بات تم نے سن لی
"جی آنٹی"
بیٹا سائرہ کو میں نے اپنی بیٹی بنائ ہوئ ہے
"بیٹا کوئ بھی لڑکی اپنا گھر نہیں اجاڑتی مگر جب مجبوری آجاتی ہے تو ایسے تلخ فیصلے کرنے پڑتے ہیں کوئ بھی ماں یہ نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کو طلاق ہو جائے لیکن میں خوش ہوں کہ سائرہ بیٹی نے درست فیصلہ کیا ہے اس کی زندگی تباہ ہونےسے بچ گئ ہے"
"جی آنٹی آپ نے درست کہا"
"اور اپنے گھر والوں کو تم نے یہ بات سمجھانی ھے "
"ٹھیک ہے آنٹی میں سمجھ گیا"
"بیٹا کھانا کھا کے نا اکرم کے ساتھ جاو اور گاڑی میں سیٹیں بک کرالو کیوں کہ عین ٹائم پر سیت ملنی مشکل ہو جاتی ہے"
"اور سائرہ بیٹی تم دل چھوٹا نا کرو قسمت نے ساھ دیا تو اس سے اچھا رشتہ ملے گا"
"نہیں آنٹی میری جوتی کو بھی ان کی پروا نہیں ہے"
کھانا کھانے کے بعد میں اکرم کو لیکے اڈے پر چلا گیا دو سیٹیں بک کیں زات گیارہ بجے والی گاڑی پر اس کے بعد ھم واپس گھر آگئے وہاں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے آنٹی نے چائے دی
"بیٹا یہ آپ لوگوں کااپنا گھر ہے تم لوگوں کو بھجوانے کو دل تونہیں کر رہا ہے لیکن وہاں تمھاری امی پریشان ہورہی ہونگی پھر جب دل کرے آجانا ویسے میں بھی چکر لگاونگی اس دوران ھم نے چائے ختم کی اور ان کےساتھ گپ شپ لگانے لگےانٹی کی فیملی بھی چھ افراد پر مشتمل ہے  اس کا خاوند فوج  میں ہے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے تھوڑی دیر بعد ھم یوں گھل مل گئے جیسے ایک ہی گھر افراد ہوتے ہیں آنٹی کی درمیان والی بیٹی سب سے خوب صورت ہے میں اس کی طرف چوری چوری دیکھتا  جب وہ مجھے اپنی طرف متوجھ پاتی ایک دلفریب مسکراہٹ سے مجھے نواز دیتی جب اس نے اپنے آپ میری دلچسپی دیکھی تو میری طرف مائل ہونے لگی بات بات پہ میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگی اس کی ہنسی بڑی دل کش ہے اس نے پنک کلر کا میچنگ خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا جس سے وہ میرے دل پر اور قیامت ڈھا رہی تھی
فائزہ جی آپکاسوٹ بہت خوب صورت ہے میں نے کہا
صرف سوٹ؟ اس نے شوخی سے کہا
ارے میرا مطلب  ہے سوٹ آپ نے پہنا ہے تو اس لیئے  خوب صورت لگ رہا ہے میری بات سن سب ہنس پڑے لیکن اس کی ہنسی میرے دل کا چین لوٹ رہی تھی میری والہانہ نگاھیں اس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں باجی نے میری وارفتگی نوٹ کی تو اس نے مجھے ٹہوکا دیا  میں نے بےاختیار نظریں ہٹالیں اور ہم ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہوگئے 
صائمہ تم سائرہ کے ساتھ پیکنگ میں مدد کرو آنٹی نے صائمہ کو ہدایت کی اور مجھ سے کہا بیٹا میں نائلہ کے ساتھ ذرا ان کے ماموں کی عیادت کو جارہی ہوں 
ٹھیک ہے آنٹی اور وہ نائلہ کو لیکر چلی گئ اکرم بھی ادھر ادھر ہو گیا میں فائزہ کے ساتھ اکیلا رہ گیا میں اٹھ کے اس کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا میں نے کہا ایک بات کہوں آپ ناراض تو نہیں ہونگی میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا 
نہیں میں بھلا آپ سے کیوں ناراض ہوں گی بلاجھجک کہیں اس نے اپنا ہاتھ چھڑا نے کوشش نہیں کی جس سے میرا حوصلہ         بڑھ گیا  فائزہ جی  آئ لو یو میں نے بلا جھجک کہہ دیا اس نے شرما کرچہرہ دوسی طرف کرلیا اور آہستگی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور کرسی اٹھ گئ میں نے کہا فائزہ جی کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو 
"ہاں"    
اور اندر کی طرف بھاگ گئ مجھے اپنی منزل مل گئ مجھے اس پر ڈھیروں پیار ایا میں اٹھ کے کمرے کمرے کے اندر گیا جہاں صائمہ باجی کے ساتھ پیکنگ میں ہیلپ کررہی تھی شہزاد امی کے ساتھ  بات یہاں سے فون پر کروگے یا گھر جا کے باجی نے مجھ س پوچھا
نہیں وہاں جاکے بات کروں گا لیکن جیسے میں  کہونگا ویسے آپ نے کرنا ہے باجی نے اثبات میں سر ہلا دیا تھوڑی دیر اسی موضوع پربات کرکے میں وہاں سے نکل آیا کچن میں سے کھڑ پڑ کی آوازیں  سن کر میں نے جا کےکچن میں جھانک کر دیکھا تو میری جان من برتن دھوتی نظرآئ میری تو عید ہوگئ میں چپکے سے اندر داخل ہوگیا اور جاکے پیچھے سے جپھی ڈالی  ا
وہ اچھل پڑی مڑ کر مجھے دیکھا تو اس کی جان میں جان آئ 
اوہ! تم  چھوڑو مجھے کوئ دیکھ لے گا وہ کسمسائ دکھنا ہے تو دیکھنے دو میں تو نہیں چھوڑنے والا  میں نےہلکا سا جھٹکا دےکے بازوں کا حصار اور ٹائیٹ کیا جس سے اس کی گانڈ میرے لن کے ساتھ ٹچ ہوگئ اور میرا لن آہستہ آہستہ اٹھنے لگا جس کو اس نے بھی محسوس کیا کیوں کہ لن دراڑھ مچھبنے لگا اسنے چھڑانے کوشش ترک کردی اور میں نے اس کی گردن کا بوسہ لیا تو اس پر بھی مستی چھانے لگی
کیا واقعی میں بہت خوب صورت ہوں  اس نے مستی بھرے لہجے میں پوچھا میں نے یک دم ہاتھوں کے حصار سے آزاد کیا اور اپنی طرف گھما کے سینے سے لگا کے کہا میری جان تم میری آنکھوں سے اپنے آپ کو تو میرے دل میں جو کچھ ہے وہ جان لو پھر اس نے منت بھرے لہجے میں کہا پلیز چھوڑدو کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی 
ایک شرط پر چھوڑوںگا میرے کان میں کہہ دو آئ لو یو تواس کو شرارت سوجھی اسنے کہا اوکے پھر اپنا منہ کان کے پاس لےجاکے اہستہ سے میرےکان  پر کاٹ لیا 
اب تو اس کا بدلہ میں لوں گا نہیں تو نہیں چھوڑوںگا
تو اس نے کہا کیا بدلہ میں نے کہا لے لوں تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا تو میں ایک دم سے اپنے ہونٹ اس کے گلاب کے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھ دیے وہ  تھوڑی سی کانپی لیکن پھر پر سکون ہوگئ ایک لمبی کس کےبعد میں نے اس کو چھوڑ دیا
بڑے بدمعاش ہو تم اس نے شوخی سے بھر پور لہجے میں کہا اور ہنس پڑی
اب جاو تم اس نے کہا اور میں بھی ہنستا ہوا باہر آگیا جیسے ہی میں باہر آیا تو ادھر دروازے سےآنٹی اندر داخل ہورہی تھی اس نے مجھے کچن سے باہر آتے ہوئے دیکھ لیا  میری تو بنڈ پھٹ کے ہاتھ میں آگئ 
باقی ائندہ کمنٹس ضرور دیجیےگا کہ کیسی لگی سٹوری




Post a Comment

0 Comments