سیمو تم بھی نا خواہ ماخواہ بات کا بتنگر بنا لیتی ہو ، غلطی بھی تمہاری اپنی ہے
او تم اسکو نظر انداز کرنے کی بجائے بار بار یاد کر رہی ہو ۔ ٹھیک ہے غلطی میری
تھی ، ایک تو رات کو نوبجے کے بعد چھت پر جا نے کی ضرورت ہی کیا تھی
خشک کپڑے صبح بھی لا سکتی تھی ، ہاں یہ بھی ہے کہ رات کو بارش ہونے کا امکان
تھا ۔۔ دن میں کپڑے دھو کر چھت پر لٹکا ئے کہ شام کو خشک ہونے کے بعد أتار لونگی
پہلے تو بزی رہی پھر شام کومیرا پسندیدہ ٹی وی ڈرامہ لگ گیا اور اس کےبعد کھانا وغیرہ کھا کرسب فارغ ہوگئے تو میں بھی اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی ۔ سردیوں کی راتیں اگرتنہا
گذریں تو یہ ناگن کی طرح ڈستی ہیں ۔ میرے میاں اس وقت جاب کے سلسلہ میں ابوظبی
ہوتے تھے اور میں سسرال کے ساتھ ہی مقیم تھی ۔ ان ہی کے بارے سوچ رہی تھی کہ
مجھے یاد آیا کہ کپژے تو ابھی چھت پر سے لائی ہی نہیں ہوں ۔ خود سے کہا أٹھ سیمو رانی
چل کپڑے اتار لائیں ۔ ہمارا گھر کافی بڑا تھا پانچ کمرے تھے تین باتھ روم ایک بڑا کچن
اور لیونگ روم اور ڈائنگ روم ۔چھت پر دو کمرے تھے گیسٹ روم کہ لیجئیے ۔ چھت
پر چھوٹی چھوٹی سی چاردیواری بنی ہوئی تھی ہمارے ساتھ والے مکان کے اوپر بھی
نئی تعمیر کی گئی تھی کیونکہ ان کے بیٹے کی شادی ہوئی تھی جس کے لئے تین کمرے بنائے گئے تھے چھت تومشترکہ تھی مگر تین فٹ اونچی دیوار درمیان میں أٹھائی گئی تھی
ہم ہمسائیوں کا آپس میں سلوک بہت اچھا تھا اور ہے ۔ میں اوپر گئی چھت پر روشنی
نہیں تھی ۔ رسی سے کپڑے أتارتے ہوئے میری نظر ہمسائیوں کےگھر کی طرف چلی گئی
ان کے کچن کا ایک درازہ ہماری چھت کی جانب کھلتا ہے دروازہ اگرچہ بندتھامگر اس کا ڈور شیشے کا تھا او رکچن میں ہماری چھت سے ان کے کچن کے اندر دیکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ میں نے دیکھا نیا نویلا بیاہتا جوڑا کچن میں کھانا کھا رہا تھا ۔ میں چونکہ اندھیرے میں تھی اس لئے وہ مجھے نہیں دیکھ سکے ہونگے ورنہ وہ ایک دوجے سے دور ہوجاتے ۔ مجھے بھی چاہئے تھا کہ دوبارا أس طرف نہ دیکھتی مگر میں کوشش کے باوجود بار بار ان کی طرف دیکھ لیتی ۔ اور یہ بھی میری غلطی تھی ۔ سمینہ (دلہن) ندیم [دلہا ] کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی اور ندیم اس کے منہ میں نوالے دے رہا تھا اور سمینہ بھی اس کو کھلا رہی تھی ۔ مجھے بہت غصہ آرہا تھا کہ یہ بھی کوئی طریقہ ہے کھانے کا وہ ایک دوسرے کا بوسہ بھی لے لیتے مجھے بالکل اچھے نہیں لگ رہے تھے حالانکہ دونوں کو میں بڑا پسند کرتی تھی دونوں مجھے آنٹی کہتے کیونکہ ندیم کی والدہ نسیم میری سہیلی تھی جس کا چند ماہ پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اسکے سارے بچے میری بڑی عزت کرتے ہیں ۔ اور سمینہ بھی بہت پیاری اور بڑی مؤدب بچی ہے مگر نہ جانے اس وقت مجھے دونوں اچھے نہیں لگے ۔ ایک دوسرے کو نوالہ
کھلانے کی بھلا کیا تؑک تھی
پھر مجھے خیال آیا۔ سیمو کیا ہوا ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔ اس طرح میاں بیوی میں پیار بڑھتا ہے ان میں انڈر سٹینڈنگ ہوتی ہے ۔ خود بھول گئی میاں نے کتنے
لاڈ سے تم کو اپنے ہاتھ سے نوالہ کھلایا تھا ، ہاں ہاں یاد ہے مجھے۔ پتہ نہیں کتنے ہی دن تو
دعوتیں ہوتی رہیں تھیں شادی کے بعد پھر کافی دنوں بعد جب ہم کو اکیلا کھانے کا موقع ملا تو انہوں نے میرے منہ میں نوالہ دینے کی کوشش کی ۔ ہائے میں کتنی شرمائی تھی اب بھی یاد کرکےمجھے شرم محسوس ہو رہی ہے دو چار نوالوں کے بعد کہنے لگ سیمو مجھے بھوکھا رکھوگی کیا ۔ میں نے بڑی مشکل سے نوالہ بنایا اور شرما شرما کر ان کے منہ میں ڈالا توانہوں نے ہولے سے میری اگلیوں کو دانتوں سے دبا دیا یہ یاد آتے ہی اب بھی میرے گال سُرخ ہو گئے ہیں، میں نے بے ساختگی میں ہاتھ سے چھو لیا ٰ۔تو تب معلوم ہوا گال کتنے سرد تھے میں کافی دیر سے ٹھنڈ میں چھت پر کھڑی ان کوہی دیکھ رہی تھی اور کپڑے آدھے سے زیادہ رسی پر ٹنگے ہوئے تھے ۔ اری سیمو رات یہیں کھڑی رہوگی کیا میں نے خودکو سرزنش کی ۔ میں نے دوچار مزید کپژے رسی سے جلدی جلدی اتارے تو پھر انکی طرف دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی ۔ ندیم نے سمینہ کی قمیض أٹھا رکھی تھی اور اس کے نپل منہ میں لےرکھے تھے یہ دیکھ کر ایک بار تو میرے نپل بھی اکڑ گئے مگر مجھے اچھا نہیں لگا ۔ سمینہ گود سے اتر کر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور اپنی قمیض اتار رہی تھی ۔ ہائے ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا ۔
میں تھوڑا نزدیک ہو کر دیکھنے لگی ٹیبل جو کہ درمیان میں تھا اس کےدونوں جانب سے
أ نہوں نے کرسیاں أٹھا کر ساتھ ساتھ ملا کررکھیں ہوئی تھیں اور ساتھ ساتھ بیٹھے تھے شکر ہے کمرے میں کا فی روشنی کی وجہ سے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے پھر بھی مجھے ڈر تو لگ رہا تھا ۔ ندیم نے سمینہ کی مدد سے اس کی قمیض اتار دی تھی اور اب صرف برا اور شلوار پہنے ہوئے تھی شاید انہوں نے چولہا یا اوون جلا رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کو
سردی نہیں لگ رہی تھی یاجوانی کی گرمی تھی اور کچن ویسے بھی گرم ہی ہوتا ہے ۔ سمینہ برا بھی نکال چکی تھی اور ندیم سمینہ کے ممے کو مساج کے ساتھ چوم بھی رہا تھا اور ایک ہاتھ اس کی رانوں پر بھی پھیرے جا رہا تھا سمینہ نے آنکھیں بند کر رکھیں تھیں اور ندیم کے سر کو چھاتیوں کی جانب دبارہی تھی ۔ ندیم کےہاتھ سمینہ کی رانوں پر
پھر رہے تھے اور سمینہ نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں کھول دیں اور ندیم کے ہاتھ اب آذادی
سے رانوں کے اندرونی حصے بھی مساج کر رہے تھے اور اچانک سمینہ نے ایک جُھرجُھری سی لی شاید ندیم نے اس کے دانہ کو چُھو لیا تھا ۔ سمینہ نے ایک بار رانوں کو
بھینچ کر پھر دوبارہ زیادہ کھول دیا ار کرسی کی سیٹ سے تھوڑا آگے کو کھسک آئی
تھی ۔ ندیم نے نیفے کے اندراپنا ہاتھ ڈال کر سمینہ کے نازک اعضا پر مساج شروع کی اور
ساتھ ہی اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے عضو پر رکھ دیا سمینہ نے پاجامہ کے اوپر سے
اسے پکڑ لیا تھا وہ تو پہلے ہی سے اکڑا ہوا تھا ۔ وہ مزہ میں مگن تھے اور مجھے غصہ آرہا تھا۔ کہ یہ کر کیا رہے ہیں ان کو شرم بھی نہیں آرہی ایسے بھی کوئی کرتا ہے ان کو
کمرے میں جانا چاہیے تھا میں کچھ رنجیدہ سی تھی کہ مجھےخیال آیا سیمو بھول گئیں تمہارے میاں نے بھی تم کو ایک بار کچن میں کیا تھا ، ہاں یاد ہے مجھے مگر ان کو تو باھر
جانا تھا صبح کے وقت میں ناشتہ بنارہی تھی میاں نے کہیں جانا تھا ۔ میں صبح سویرے
نہا کر کچن میں آگئی میرے بال بھیگے ہوئے تھے اورپچھلی رات کی بھرپور کاروائی
کو یاد کرتے ہوئے گُنگُناتے گُنگُناتےآملیٹ بنانے لگی ۔ سب سوئے تھے ساس اور سُسر جن کو میں امی اورابا بولتی تھی تہجد اورفجر نماز پڑھ کر سوجاتے تھے ۔ میں نے چائے بنانے کےلئے پانی چولہے پر رکھا تو میاں آگئے اور مجھے پیچھے سینہ سے لگا لیا میں ہنسی اور بولی صبح سویرے اتنا پیار آرہا ہے ۔ کہنے لگے دن ہو یاشام رات ہو یا صبح مجھے تم پر پیار آتا ہے یہ کہتے ہوئے وہ میرے اور قریب ہوگئے میں نے پیجھے سے چبھن محسوس کی توکہا
ان صاحب کو کبھی نیند نہیں آتی کیا ۔ ہروقت اکڑے اکڑے رہتے ہیں صاحب ۔ کہنے لگے
میں تو غلام ہوں یہ ٹہرے صاحب اورتم ہو بی بی اب صاحب اور بی بی آپس میں کچھ مک مکا کرلیں اس غلام نے کہیں جانا ہے ۔ میں سیدھی ہوگئی اور انکے گلے لگ گئی ۔
ان سے کہا بی بی کی کیا مجال جو صاحب کی خواہش کو حکم نہ سمجھے اورا نہوں نے
مجھے وہیں کچن میں ہی ٹیبل پر لٹا لیا میری ٹانگیں ٹیبل سے لٹکی ہوئی تھیں أنہوں
نے میرے دونوں پاؤں أٹھا کر ٹیبل پر ٹکا دیئے وہ چونکہ کھڑے تھے اس طرح صاحب اور
بی بی بالکل آمنے سامنے آگئے ۔ بی بی تو تیار ہی تھی رات کے بھر پور پیارکا جواب صاحب کو دینے کے لئے ۔ مگر صاحب بھی کچھ زیادہ ہی تنا ہوا نظر آرہا تھا حالانکہ رات بھر
اس نے بڑی محبت سے بی ی کو خوش کیا تھا ، میاں سے پوچھا غلام جی یہ صاحب کچھ
زیادہ ہی غصہ میں نظر نہیں آ رہے کیا ؟ تو کہنے لگے کہ نشہ میں لگتا ہے میں نےحیرت
سے پوچھا ، اسے کونسا نشہ کروا دیا بولے میں نے نہیں یہ تمہارے بھیگے بدن کی خوشبو سےنشہ میں جھوم رہے ہیں مجھے صاحب پر بے ساختہ پیار آگیا ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑا اور تھوڑی تھپکی دے کر بی یی کے اوپر ٹکا دیا اور غلام کو کہا اب ایے
زور دار دھکا مارو تاکہ صاحب اور بی بی ایک ہوجاویں۔ میں نے تو یوں ہی کہا مگر غلام
صاحب کا وفادار نکلا اس نے ایسے جھٹکے سے دھکا دیا کہ صاحب بی بی کی چولیں ہلاتا ہوا
جڑھ تک اندر جا ٹکرایا ۔ میں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی، بابا تھوڑا ہاتھ ہولا رکھو نہیں تو
بی بی کسی کام کی نہیں رہے گی ۔ پھر صاحب نے بڑے آرام سے اپنا کام کیا اور بڑے پیار
اندر جاتا حال احوال پوچھتا اور بڑے مان سے واپس آکر پھر بی بی کی دیواروں کو رگڑتا ہوا جاتا ان گنت بار آگے پیچھے آ جا کر آخر کار را ضی برضا بی بی سے آنسو بھاتا ہوا جدا ہوا ۔ بی بی بھی خوشی کے آنسو بھا نے لگی کیونکہ پچھلی رات کو بھی صاحب نے بہت
مزہ دیا اور اب تو رات کا مزہ بھی بھلا دیااسا سواد دیا ، ہاں ہم نے بھی کیا تھا مگروہ تو میاں کو باھر جانا تھا ۔ ن کو کی مجبوری ہے اندر جاکر کمرے میں آرام سے کریں
میں نے ادھر دیکھا تو حیران رہ گئی ۔ سمینہ اب بالکل برہنہ ہوچکی تھی اس کی شلوار
نیچے پڑی ہوئی تھی ۔ اور ندیم کا ہتھیار ہاتھ میں لئے مالش کے انداز میں دبا رہی تھی
ندیم کی انگلی اور ہاتھ سمینہ کی جائے مخصوصہ کو دبا رہے ھاتھ اور انگلی کی کارستانی
سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سمینہ بار بار اس کے ھتیار کو چومنے لگتی ۔ میں اور تھوڑا نزدیک ہو کر چاردیواری جو کہ ہمارے اور ان کی چھت کی سرحد تھی کے پاس جاکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ندیم کا صاحب کتنا بڑا اور موٹا ہے ۔ میرا سر اب چاردیواری سے اوپر تھا اور سارا جسم چھپا ہوا تھا۔ میں نے سر سے دوپٹہ بھی اتار لیا تھا تاکہ ان کی توجہ سے بچ جاؤں اب میں بڑی آسانی سے ندیم کے اوزار کو دیکھ سکتی تھی اچھا خاصا لمبا اور موٹا جو کسی بھی لڑکی کے خوابوں کا شہزادہ ہو سکتا تھا سپیشلی اس کے سر کی ٹوپی بڑی اٹریکٹیو تھی تھوڑا لمبا مگر موٹا سر بہت خوبصورت لگ رہ تھا سمینہ اسکو دباتی ہاتھ اوپر نیچے لے جاکر اس کو مٹھاتی بڑی خوش تھی ۔ خوش کیوں نہ ہوتی وہ خوش نصیب تھی جس کوا یسا پیار کرنے والا خاوند اس کے قریب تھا ۔ اب مجھے خود پر غُصہ آنے لگا ۔ کہ میں ان کو کیوں دیکھ رہی ہوں ۔ کتنی بدل گئی سیمو تو یاد ہے پتہ نہیں کتنے دنوں تو نے اپنے میاں کا نہیں دیکھا تھا اور نہ ہاتھ سے چھوا تھا ، ہاں مجھے یاد ہے وہ کہتے تھے اسے چھو کر دیکھ نہیں کاٹتا ، میں کہتی مجھے شرم آتی ہے پھر میں میکے گئی ایک ماہ بعد یہ لینے گئے رات کو مجھ سے لپٹ کر کہنے لگے کوئی تم کو بہت مِس
کرتا رہا ، میں نے پوچھا وہ کون؟ تو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنےنفس پر رکھ دیا میں تو چونک
گئی بہت گرم لگا ۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا ، میاں بولے اتنا ظلم نہ کر بیچارہ اب بھی رو رہا
ہے تو میں نے پوچھا، ہیں ، کیا یہ بھی روتا ہے ؟ کہنے لگے ، اعتبار نہیں تو دکھادوں میں نے سوچا مذاق کر رہے ہیں یہ بھلا کیسے روسکتا ہے انہوں نے میری خامشی کو رضامندی سجھا اور پاجامہ أتار کر سیدھے لیٹ گئے اب ان کا وہ کھڑا لہرا رہا تھا جیسے سلامی دے رہا ہو ۔ میں نے پوچھا آنسو اس کے کہاں بہ رہے ہیں تو انہوں نے اس کے سر کو تھوڑا سا دبایا
تو سر پر ایک چمکتا ہوا آنسو کا قطرہ دکھائی دیا میں حیران ہوگئی اب انہوں نے کہا کہ یہ
تمہاری چاہ میں آنسو بہا رہا ہے اور تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا آنسو پونچھ ڈالو
میں نے نپکن أٹھانا چاہا تو بولے جانم اس کو تمہارے ہاتھ لگیں گے تو اس کی دلجوئی ہوگی
میرا دل تو ویسے بھی اب چاہ رہا تھا کہ اس خوصورت پیارے سے ڈنڈے کو چُھو کر دیکھوں
میں نے اس کو پہلے تو چُھوا پھر ہاتھ میں لیا ، بہت بھلا محسوس ہوا ۔ میں نے ایک ہاتھ
سے پکڑ کر اسکی اکیلی آنکھ کا آنسو صاف کیا بڑی گوند جیس چپکاہٹ تھی آنسو میں ۔
میاں کہنے لگے کہ اسے ٹیسٹ کرو آنسو کی طرح تُرش ہوگا اس کا ذائقہ مگر میں نے ٹیسٹ
نہیں کیا مگر اسکو ہاتھ سے نہیں چھوڑا میں اسے کبھی دائیں لے جاکر چھوڑتی تو لیفٹ کو
فلپ کرتا اگر نیچے ان کی ٹانگوں کیطرف لے جاکر چھوڑ دیتی تو واپس انکے پیٹ کی طرف
چلا جاتا ۔ میرے ہاتھ تو گیم آگئی ۔ میاں پوچھنے لگے جانتی ہو اسے کیا کہتے ہیں ۔ میں
نے سر نفی میں ہلا دیا بولے اچھا پوچھو اس کو کیا کہتے ہیں میں نے پوچھ لیا اس کو کیا
کہتے ہیں تو کہنے لگے اس کو لن کہتے ہیں اسے لوڑا بھی کہتے اور لُلا یا للو بھی کہتے یں پھرانہوں نے پوچھا اچھا اب بتاؤ تو میں شرما گئی انہوں نے کہا چلو صرف ایک بار اسے
لن بول دو ، میں نے ہاتھ میں لے کر کہا ، لن ، تو مجھے بہت اچھا لگا میں نے تین چار
بار لن لن لن کہا اورمسکرا دی اب انہوں نے میری جائے مخصوصہ کو ٹچ کرکے کہا اسکو کیا کہتے ہیں تو میں کچھ نہ بولی تو انہوں نے وہاں مساج کرتے ہوئے کہا اس کو چوت
بھی کہتے ہیں چُت بھی اور ُپھدی بھی ۔ پھر انہوں نے مجھے پوچھا تم بولو اس کو
کیا بولوں ۔ میں نے کہا جو آپکی مرضی اور اپنی ٹانگ ان کےلن کے اوپر رکھدی وہ کہنے
لگے میں تو اسے چوت بولوں گا میں نے لن کو دباتے ہو ئے کہا اس کو لن بولوں گی ۔ اس رات ہم کو بہت مزہ آیا کیونک ہم ایک ماہ کےبعد ملے تھے ۔ ساری رات لن چوت کو چودتا اور چوت لن سے چدواتی رہی ۔
میں نے پھر ان کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک کھیل رہے تھے ندیم سمینہ
کی چوت پر چپت رسید کرتا تو سمینہ اس کے لن کو ہولے سے مارتی اور ساتھ ساتھ
وہ دونوں کسنگ بھی کر رہے تھے ندیم کا پاجامہ بھی اتر چکا تھا ۔ اب سمینہ اپنی
کرسی سے أٹھ کر ندیم کی طرف منہ کر کے اسکی گود میں بیٹھنے لگی تو اس کے
لن کو پکڑ کر اس پر اپنی چوت پھسلانے لگی اور آہستہ آستہ لن چوت کےاندر غائب
ہوگیا اور سمینہ اوپر نیچے ہوکر چدوانے لگی ۔ مجھےمحسوس ہوا جیسے میری ٹانگیں
بھیگ گئی ہوں میں نےہاتھ لگا کر دیکھ میری چوت نے بہ بہ کر میری پینٹی او شلوار
دونوں کو بھگو دیا تھا اب مجھے اپنی چُوت کو چُھونا بہت اچھا لگ رہا تھا میں نے
اپنی انگلی اندر کی اور پھر ندیم سمینہ کی چدائی دیکھنےلگی ۔ سمینہ اب پوزیشن
بدل کر اپنی پیٹھ ندیم کی طرف کرچکی تھی ۔ اب سمینہ بالکل میرے سامنے تھی
اور مجھے اس کی چوت میں ندیم کا لن آتا جاتا دکھ رہا تھا اور میں مزہ لے رہی کہ
اچانک میں ایک بار پھر فارغ ہوگئی اور اسی بےخودی میں تھوڑا سا أٹھ گئی
میں چونکہ سمینہ کے سامنے تھی اس کی نظر کسی حرکت کرتی شے پر پڑی تو وہ فورا أٹھ گئی او ندیم کا لن یو نہی لہرا رہا تھا کہ سمینہ نے اس کو بتایا وہ بھی فورا ٹھا
اور کپڑے اٹھا کر دونوں سیدھا کمرے کی طرف چلے گئے ۔ میں وہیں دُبکی رہی اور کپڑے
أتارے بنا یونہی جُھکے جُھکے واپس نیچے آ گئی ۔ میں بہت نروس تھی کہ کہیں انہوں نے پہچان ہی نہ لیا ہو۔ تھوڑی دیر بعد اوسان بحال ہوئے اورچاپائی پر لیٹی تو پھر مجھے
أن کی چدائی کے سین انکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے ندیم کا لن سمینہ کی چوت
میں آتا جاتا بار بار نظارہ دیتا میں نے اپنے سارے کپڑے ا تا دیئے اورندیم کا تصور کرکے
خوب فنگرنگ کی - جو کپڑے اتارنے گئی تھی وہ تو رہ گئے مگر میں نے اپنےکپڑے اتار دئے ۔ آخر کپڑے آتر ہی گئے
۔ اور دوسرے دن میں نے ٹوہ لگانے کی کوشش کی کہ سمینہ ندیم کا رویہ
سے کچھ انداز لگاؤں کہ کہیں ان کو مجھ پر شک تو نہیں ہوا مگر ان کا رویہ حسب معمول تھا
مگر مجھے اب وہم ہو گیا ہے کہ کہیں وہ جانتے ہوں کہ وہ کوئی بلی یا ان کا وہم نہ تھا میں تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیمو تم بھی نا خواہ ماخواہ بات کا بتنگر بنا لیتی ہو ، غلطی بھی تمہاری اپنی ہے اور تم اسکو نظر انداز کرنے کی بجائے بار بار یاد کر رہی ہو-
دوستو ۔ یہ کہانی زرا سی روایت سے ہٹ کر لکھی ممکن ہے آپ لوگوں کو پسند نہ
مگر اپنی رائے سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔
۱۔ کہانی سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں جو ہم کرتے ہیں بعض اوقات دوسرے کریں تو ہم
ان کو غلط سمجھتے ہیں ۔
۲۔ اگر خاوند کافی عرصہ بیوی سے دور رہے تو بیوی کا بہکنا آسان ہو تا ہ
0 Comments