Hot New

6/recent/ticker-posts

Sponser

بارش, شرارت , نازیہ



ہیلو دوستو کیسے ہو آپ ۔۔؟ سب مزے سے گزر رہی ہے دوستو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے پاس باوا آدم کے زمانے کا ایک بائیک ہے جو چلتا کم ہے اور مجھے پیدل زیادہ چلاتا ہے اس لیئے میں بائیک پر اکثر پیدل مارچ زیادہ کرتا ہوا پایا جاتا ہوں ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ ویسے تو بائیک بڑے مزے کی سواری ہے لیکن کبھی کی س اس پر مشکلیں بھی پیش آتیں ہیں ۔۔ خاص کر جب طوفانی بارش ہو رہی ہو تو۔۔۔۔۔ اس وقت ۔۔۔ چند انچ سےبھی آگے کچھ نظر نہیں آتا اور بائیک والا خاص کر اس وقت خود کر بڑا کوستا ہے ۔۔ تو دوستو یہ سٹوری بھی انہی طوفانی بارش کے دنوں کی ہے پڑھ کر اپنی رائے سے ضرور نوازنا کہ آ پ کو کیسی لگی ۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کے لیئے نکلا تو اس وقت آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے چنانچہ گھر سے نکلتے وقت میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور ہلکے بادل دیکھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور بائیک کو کک مار ۔۔۔کر ۔۔سوری ۔۔اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری بائیک پہلی کک پر تو اس وقت بھی اسٹارٹ نہیں ہوتی تھی کہ جب یہ نئی نئی ہمارے حبالہء دام میں آئی تھی(سیکنڈ ہینڈ لی تھی) ۔۔ سو بائیک کوککیں مار مار کر جب ہمارا دایاں پاؤں شل ہو گیا اور جب دل سے خود بخود بائیک ایجاد کرنے والے کے لیئے گالیاں نکلنا شروع ہو گئیں تو میں خوش ہو گیا کہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب بائیک اسٹارٹ ہونے کے قریب آ پہنچا ہے ۔۔۔ اور پھروہی ہوا ۔۔ کہ جب میں نے اپنا بچا کھچا زور لگا تے ہوئے بائیک اور اس کے ساتھ ساتھ بائیک کو ایک موٹی سی گالی ۔دیکر ۔ کک ماری ۔۔۔۔ تو۔۔۔ ۔۔۔پھٹ پھٹ کرتی ہوئی میری پھٹ پھٹی اسٹارٹ ہو گئی اور بندہ خود کہ یہ کہتا ہوا بائیک پر سوار ہو گیا کہ آج واپسی پر مستری کو ضرور دکھاؤں گا ۔ اوردفتر کی طرف چل پڑا ۔۔ابھی میں گھر سے تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ اچانک وہ ہلکے ہلکے بادل گھنگھور گھٹا میں تبدیل ہوگئے اور پھر یکا یک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور یہ مینہ اتنی تیزی سے برسنے لگا کہ مجھے سامنے سے سوائے موسلا دھار بارش کے کچھ دکھائی نہ دینے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی پھٹ پھٹی کی سپیڈ مزید آہستہ کی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھ کر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہاں پاس ہی ہمارے ایک نہایت ہی قریبی عزیزوں کا گھر ہے اور جن عزیز کی میں بات کر رہا ہوں ان کا نام جاوید اقبال تھا اور ان کے دو بچے تھے ایک لڑکا اسد جو کہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور دوسری ۔۔۔ جی جی ۔۔دوسری ان کی بیٹی کہ جس کا نام نازیہ تھا اور وہ ایم اے ہسٹری کر کے فارغ تھی اور گھر کے کاموں میں اپنی ماما کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بڑی خوبصوت اور دلکش لڑکی تھی وہ اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سمائلنگ فیس تھی ۔۔۔ اور اس کی یہی مسکراہٹ تھی کہ جس نے بڑوں بڑوں کو گھائل کیا ہوا تھا اور ان بڑے بڑے ناموں میں ۔۔۔۔ایک نکا سا میں بھی تھا ۔۔۔سمال کراکری چھوٹا بھانڈا۔۔ہاں تو میں آپ کو نازیہ کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔کہ ۔نازیہ ایک لمبے قدکی دودھیا گوری لڑکی تھی اور اس کے سینے پر بڑے بڑے ۔۔۔۔۔ابھار ۔۔۔۔ روز ہی ہم جیسوں کی نیت کو خراب کرتے تھے ۔۔اور اس کے ان بڑےبڑے مموں کی ایک خاص بات اس کے نوکیلے نپلز تھے جو عموماً اس کی ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں سے صاف چھپتے بھی نہیں تھے اور نظر بھی آتے تھے اور یہ نوکیلے اور گلابی مائل نپلز اب بھی جب یاد کرتا ہوں تو میرے نیچے کچھ ہلچل سی مچ جاتی ہے ۔۔بیل کے جواب میں مسزز جاوید نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر ایک مہربان مسکراہٹ ابھری اور وہ بڑی شفقت سے کہنے لگیں ۔۔۔ارے۔۔۔آج یہ چاند کدھر سے نکل آیا ۔۔ پھر جیسے ہی ان کی نظریں میرے بھیگے بدن پر پڑیں تو وہ ایک دم چونک گئیں اور بولیں ۔۔۔اوہ۔۔۔او۔۔۔۔ بیٹا تم تو بُری طرح سے بھیگ گئے ہو ۔۔جلدی سے اندر آ جاؤ ۔۔۔ اور خود ایک طرف ہٹ گئیں جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو ۔۔۔۔ تو انہوں نے فورا ً ہی اپنی بیٹی (نازیہ ) کو آواز دی نازیہ۔۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔اور پھر انہوں نے وہیں سے دوبارہ آواز لگائی اور کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹا جلدی سے بھائی کے کپڑے لے آؤ ۔۔ اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔ ایسا کرو کہ پہلے تم کپڑے تبدیل کر لو ۔۔۔اتنے میں ، میں تمھارے لیئے چائے لیکر آتی ہوں ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی کمرے میں داخل ہو گئی اور مجھے دیکھ کر بولی ۔۔۔ اوہو ۔۔ بھائی آپ تو بُری طرح سے بھیگ چکے ہو ۔۔۔۔پھر بولی آپ ایسا کروکہ باتھ روم میں بھائی کا نائیٹ پاجامہ ٹنگا ہے وہ پہن لیں اور یہ بھیگے کپڑے آپ مجھے دےدیں کہ میں ان کو استری کر کے سکھا دیتی ہوں ۔نازیہ کی بات سُن کر میں جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور اس کے بھائی کا نائیٹ پاجامہ شرٹ پہنا اور اور اپنے گیلے کپڑے لیکر باہر آ گیا ۔۔۔۔ نازیہ کمرے کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔ جیسے ہی میں واش روم سے باہر آیا اور اس کی نظریں مجھ پر پڑی ۔۔۔ پہلے تو وہ ٹھٹھک گئی ۔۔۔اور پھر وہ بڑے زور سے ہنسے لگی ۔۔۔۔ پھر اچانک پتہ نہیں اسے کیا یاد آیا کہ ایک دم سے اس کا دودھیا چہرے لال ہو گیا ۔۔۔۔۔ ادھر میں حیرانی سے اسے تکے جا رہا تھا کہ پتہ نہیں اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے ۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ اس نےاپنا منہ دوسری طرف کیا اور اپنے ہاتھ سے میرے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔۔اور اب جو میں نے ۔ اس کی ڈائیریکشن میں اپنے نیچے کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میرا پہنا ہوا پاجامہ نیچے سے سارا پھٹا ہوا تھااور میرا بڑا سا لن ٹٹوں سمیت پاجامے سے باہر نکلا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں فوراً ہی واپس واش روم میں گھس گیا اور نازیہ کو کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اسد کا کوئی دوسرا پاجامہ لا دو ۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور بولی ۔۔۔اوکے آپ اندر ہی رہنا میں لے کر ابھی آئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے واش روم کے دروازے پر دستک دی میں نے دروازہ کھول کر صرف سر باہر نکالا اور اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بنا کچھ کہے اسد کا ایک اور پاجامہ مجھے تھما کر چلنے لگی تو پیچھے سے میں نے اسے آواز دیکر کر شرارت بھرے لہجے میں پوچھا کہ ۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے نا ؟؟؟۔۔ میری بات سُن کر اس نے مُڑ کر میری طرف دیکھااور مسکرا کر بولی ۔۔۔جی۔۔۔ یہ ٹھیک ہے اور پھر باہر بھاگ گئی۔۔۔ میں نے جلدی سے پاجامہ تبدیل کیا اور باہر آ کر دیکھا تو مسزز جاوید کھڑی تھیں ۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں ۔۔لو بیٹا چائے تیار ہے۔۔۔ تم چائے پی لو اتنے میں نازیہ تمھارے کپڑوں کو سکھا کر لے آتی ہے۔۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ مسزز جاوید کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگاتا رہا ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی میرے کپڑوں کو سکھا کر لے آئی تھی ۔۔۔۔ اور میرے سامنے کپڑے رکھ کر وہ بھی بیٹھ گئی اور ہماری گپ میں شامل ہوگئی ۔۔ باتوں باتوں میں اچانک مسزز جاوید نے اپنےسر پر ہاتھ مارا اور بولی ۔۔۔ ایہہ لو ۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ۔۔۔ میں نے ہانڈی چھو لہے پر رکھی ہوئی ہے ۔اور پھر اُٹھتے ہوئے بولیں میں چلوں کہ ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ہانڈی جل گئی ہو اور پھر وہ تقریباً بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی ۔جیسے ہی آنٹی کچن میں گئی تو نازیہ نے اپنی گود میں پڑے ہوئے کپڑے اٹھائے اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ ۔۔ ۔۔ بھائی کپڑے پہن لیں تو میں نے مزاقاً اس سے کہا کہ اس کو تو نیچے سے نہیں پھاڑا نا؟؟؟؟ اس نے میری بات سنی لیکن اس کا جواب گول کر گئی ہاں البتہ میرے ہاتھ میں کپڑے پکڑاتے ہوئے اس نے اپنے لمبے لمبے ناخن بڑی ذور سے مجھے چبو دیئے ۔ کپڑے تبدیل کر کے میں باہر آیا اور آنٹی کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ اتنی دیر میں بارش بھی تھم چکی تھی ۔۔ چنانچہ میں آفس آ گیا ۔۔آفس پہنچ کر بھی مجھے نازیہ کی مسکراہٹ اور خاص کر اس کا ناخن چبونا مجھے کافی دیر تک تنگ کرتا رہا ۔۔۔۔عاشق تو میں اس پر پہلے سے ہی تھا ۔۔۔لیکن اس کی اس حرکت کے بعد میں نے اس پر ہزار جان سے فدا ہو نے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔اور پھر یہ فیصلہ کرنے کے بعد میں آفس کے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔۔چائے کے وقفے کے دوران جب مجھے ایک دوست کو فون کرنے کی حاجت پیش آئی تو میں نے جیب میں ہاتھ مارا تو موبائیل ندارد ۔۔۔۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد بھی جب وہ نہ ملا تو اچانک مجھے خیال آیا کہ وہ کہیں نازیہ کے گھر میں ہی نہ رہ گیا ہو ۔۔۔یہ سوچ آتے ہی میں نے لائین لینڈ نمبر سے نازیہ کے گھر فون کیا تو اتفاق سے فون نازیہ نے ہی اُٹھایا ۔۔۔ اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی وہ کہنے لگی۔۔۔ جناب شاہ صاحب آپ کا موبائیل تو بہت بجتا ہے ۔۔پھر ریسور پر اس کی جلترنگ سی ہنسی گونجی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔ پتہ نہیں کس کس کو نمبر دے رکھا ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سیریس ہو گئی اور اپنی ٹون تبدیل کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اینی وے ۔۔۔ جناب آپ کا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔۔۔ جب جی چاہے آ کر لے جانا۔۔ اس کی بات سُن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی مجھے معلوم ہے کہ میرا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن آپ سے ایک گزارش ہے کہ۔۔۔۔ اور اتنا کہہ کر چُپ ہو گیا تو میں نے رسیور پہ اس کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھی جی ۔۔ بولیئے ۔۔ کیا گزارش کرنی ہے تو میں نے کہا ۔۔۔وہ جی گزارش یہ کرنی تھی کہ ۔۔۔۔۔ کہ مہربانی کر کے میرے موبائیل کے کور کو بھی نیچےسے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میری بات کاٹ کر بولی ۔۔۔ شاہ جی آپ بھی نا۔۔۔ بڑے وہ ہیں اور ہنس کر ۔۔ ۔۔۔۔ فون بند کر دیا ۔۔ اس کے فون بند کر نے کے تھوڑی دیر بعد میں نے اس کو فون دوبارہ ملایا اور اس کو اپنے دوست کا نام بتا کر کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اس دوست کا نمبر لکھوا دے ۔۔ میری بات سُن کر اس نے مجھے ایک منٹ ہولڈ کرنے کو کہا اور کچھ دیر بعد اس نےمجھے نمبر لکھواتے ہوئے بڑے زُومعنی الفاظ میں کہا ۔۔۔ ویسے شاہ جی یہ دوست میل ہے یا فی میل ۔تو میں نے اس سے کہا کہ مس جی یقین کرو کہ یہ نمبر میل کا ہی ہے کیونکہ اگر یہ فی میل ہوتی تو مجھے اس کا نمبر زبانی یاد ہوتا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگی آپ کی بات میں دم ہے اور ۔ ۔ پھر اس کے بعد وہ میرے ساتھ کافی فرینک ہو گئی اور ہم نے آدھے گھنٹے تک مختلف مضوعات پر کافی ساری باتیں کیں ۔۔۔شام کو جب میں گھر اپنا موبائیل لینے گیا تو مجھے آنٹی ملیں وہ کسی فنگشن میں جانے کی تیاری کر رہیں تھیں اور بڑی جلدی میں لگ رہیں تھیں۔۔ مجھے دیکھتےہی کہنےلگیں سوری بیٹا ہم لوگ ایک شادی میں جا رہے ہیں اس لیئے میں آپ کو چائے پانی کا نہیں پوچھ سکتی ہاں آپ کا موبائیل نازیہ کے پاس پڑا ہے۔۔۔جا کر اس سے لے لو۔۔ اور خود جلدی سے واش روم میں گھس گئیں ۔۔۔آنٹی کی بات سُن کر میں نازیہ کے کمرے کی طرف گیا تو اسے بند پایا ۔۔۔ میں نے دستک دینے سے پہلے ویسے ہی ہینڈل گھما کر دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا ۔۔ ان کے گھرانے کے ساتھ میری بے تکلفی تو پہلے سے ہی تھی ۔۔۔ لیکن آج دوپہر کی بات چیت کے بعد خصوصاً نازیہ کے ساتھ میری بے تکلفی کچھ اور بڑھ گئی تھی اس لیئے میں نے دروازہ کھولا اور بے دھڑک اندر داخل ہو گیا ۔۔۔ اندر داخل ہو کر دیکھا تو کمرے میں نازیہ موجود نہ تھی لیکن اس کے ڈریسنگ پر مجھے اپنا موبائیل پڑا نظر آ گیا ۔۔۔ چنانچہ میں اس کے ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور ابھی میں وہاں سے اپنا موبائیل اُٹھا ہی رہا تھا کہ اچانک واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ میں نے جو دروازے کی طرف دیکھا تو نازیہ بڑی تیزی کے ساتھ واش روم سے باہر نکل رہی تھی اس کے ایک ہاتھ میں قمیض جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک میلی سی برا پکڑے وہ تیزی کے ساتھ اپنی الماری کی طرف بڑھ رہی تھی (میرا خیال ہے کہ وہ نئی برا لینا چاہ رہی تھی) جبکہ اس کا اوپری جسم بلکل ننگا تھا ۔۔۔ اور نچلے جسم پر صرف شلوار تھی ۔۔۔اور اس کے اس دودھیا ننگے بدن پر اس کے گول گول ممے تنے ہوئے تھے ۔۔ اس ان تنے ہوئے مموں پر گلابی رنگ کے اس کے دودھ کے نوکیلے سے نپل قیامت ڈھا رہے تھے۔۔۔ میں نے ایک نظر ہی میں نازیہ کے اوپری بدن کا ایکسرے کر لیا تھا ۔۔۔ اور پھر اس سے اگلے ہی لمحے میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں ۔۔۔۔ اور ایک لحظہ کے لیئے ہم دونوں ہی ساکت ہو گئے۔۔۔ اور خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے وہ ہوش میں آ گئی ہو ۔۔۔اور اس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں پر رکھے اور ۔۔۔ چلا کر بولی ۔۔۔۔آآ۔۔آپ ؟؟۔۔۔۔تم۔م م م م م م ۔۔۔۔۔یہاں کیسے ؟؟؟؟؟ حیرت اور غصے سے اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا اور ۔اس وقت صورتِ حال کچھ ایسی بن گئی تھی کہ میں خود بھی تھوڑا کنفیوزڈ ہو گیا تھا چنانچہ صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے باہر جانے لگا۔۔۔ اور ۔۔۔ چند قدموں کے بعد ہی مجھے اپنا موبائیل یاد آگیا ۔۔۔۔۔۔۔اور میں جاتے جاتے رُک گیا اور نازیہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔میں اپنا موبائیل لے لوں ۔؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ میری بات سُن کر وہ آگ بگولہ ہو گئی اور غصے سے بولی ۔۔۔دفعہ ۔۔ہوجاؤ۔۔۔۔ذلیل۔کمینے ۔۔ میں اس کا مُوڈ دیکھ کر چپ ہو گیااورخاموشی سے باہر نکل گیا ۔۔۔ چونکہ وہ لوگ اس وقت شادی میں جانے کے لیئے تیار ہو رہے تھے اس لیئے میرا وہاں رُکنا بے کار تھا۔۔ چنانچہ میں گھر آ گیا ۔۔ پر سارے راستے میرے زہن میں نازیہ کو گول گول ممے اور نوکیلے نپلز گھومتے رہے۔۔جس سے میرا اور میرے لن کا برا حال ہو گیا سو گھر جاتے ہی سب سے پہلے میں نے واش روم کا رُخ کیا اور نازیہ کے نام کی مُٹھ ماری۔۔۔اور باہر آ گیا ۔۔ لیکن نازیہ کے گول مموں خاص کر اس کے نوکیلے نپلز پھر سے میرے دماغ میں گردش کرنے لگے۔۔اور میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ اور اتنی سختی سے کھڑا ہوگیا کہ مجھے ایسا لگنے لگا کہ یہ ابھی ٹوٹ جائے گا۔۔۔ یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے میں نے دوبارہ سے مُٹھ کا ارادہ ترک کیا اور سوچا کہ لن کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے اپنی ایک دوست آنٹی کو فون کرتا ہوں اور پھر فون سے یاد آیا کہ میرا موبائیل تو جاوید انکل کے گھر پڑا ہے پھر یاد آیا کہ وہ تو شادی پر گئے ہوں گے اب کیا کروں ؟ پھر ایک خیال زہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے جاوید انکل شادی پر نہ گئے ہوں کہ عموماً ایسی دعوتوں پر جانے سے وہ پرہیز ہی کرتے تھے ۔۔ یہ سوچ کر میں نے ان کے گھر فون کیا ۔۔۔یاحیرت ۔۔کیونکہ دوسرے طرف سے ۔فون نازیہ نے ہی اٹھایا تھا اس کی آواز سُن کر میں حیران رہ گیا اورپھر میرے زہن میں ا س کے ننگے پستان آ گئے اور لن جو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا مزید تن گیا نازیہ کے ہیلو کے جواب میں میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ہائیں تم شادی پر نہیں گئیں ؟؟میرا سوال سُن کر ۔۔۔۔ پہلےتو کافی دیر تک وہ چپ رہی ۔۔۔۔میرے خیال میں وہ اس تزبزب میں تھی کہ کچھ دیر پہلے والے واقعہ کے بعد وہ مجھ سے بات کرے یا نہ کرے ۔لیکن جب کافی دیر تک میں اس سے نارمل انداز میں ہیلو ہیلو کرتا رہا اور اس پوچھا ۔۔۔ کہ کیا ہوا نازیہ ۔۔۔سو تو نہیں گئی ہو؟؟؟ ۔۔۔تو تب اس نے ایک گہرا سانس لیا اور میرا دس دفعہ کا پوچھا گیا سوال سن کر کہنے لگی جانا تھا پر نہیں گئی۔۔۔ اور امی کے ساتھ میری جگہ اسد چلا گیا ۔۔۔تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ تمھارے نہ جانے کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگی بس ایک تو کوئی خاص موڈ بھی نہ تھا دوسرا پاپا کو وقت پر دوائی دینا میری ڈیوٹی میں شامل ہے۔۔ اور شادی کا فنگشن تم کو معلوم ہی ہے کہ رات گئے تک چلتا ہے اس لیئے ہمارا خیال تھا کہ ہم پاپا کو دوائی کھلا کر چلے جائیں گے لیکن عین وقت پر پاپا کا فون آ گیا کہ وہ تھوڑا لیٹ ہو جائیں گے اس لیئے میں رہ گئی۔۔ اس کی بات سُن کر میں بڑا خوش ہوا اور اس سے کہا کہ مس جی آپ کےہاں میرا موبائیل رہ گیا تھا آپ کی اجازت سے میں وہ فون لینے آ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ ہاں یا ناں میں کوئی جواب دیتی میں نے فوراً ہی ریسور نیچے رکھ دیا ۔۔اور پھر میں آندھی طوفان کی طرح نازیہ کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ اور جا ان کا دروازہ ناک کیا ۔۔ میری ناک کے جواب میں نازیہ باہر آئی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں میرا موبائیل پکڑا ہوا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے موبائیل لیا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ کافی پریشان نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے تم کچھ پریشان سی لگ رہی ہو؟ تو وہ بات کو ٹالتے ہوئے بولی نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی ۔۔۔اور چُپ ہو گئی ۔۔اور اپنے دوپٹے کا کونہ جو کہ اس کےمنہ میں تھا ۔۔۔ اسے بار بار ۔۔ منہ سے نکلتی اور پھر ۔۔۔منہ میں ڈال لیتی واضع طور پر لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے ۔۔۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر کہہ نہ پا رہی تھی ۔۔آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ سچ بتاؤ نازیہ بات کیا ہے؟؟؟؟ تو اس نے میری طرف دیکھ کر ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ معاذ ۔۔ آنے ولا ہے۔۔۔ معاذ اس کے منگیتر کا نام تھا ۔۔اور جہاں تک میرا خیال ہے نازیہ جان بوجھ کر شادی پر نہ گئی گھی مقصد ۔۔۔ مقصد اپنے منگیتر کے ساتھ ۔۔کچھ ٹائم بتانا تھا ۔۔ لیکن عین وقت پر میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں آ گیا تھا۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ معاذ کا نام سُن کر میرے ارمانوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا تھا ۔۔۔ اور پھر میں نے بڑی مایوسی سے نازیہ کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔تو تم چاہتی ہو کہ میں یہاں سے دفعان ہو جاؤں؟ ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ پہلی دفعہ مسکرائی اور بولی میں نے تو دفعان کے الفاظ استعمال نہیں کیئے۔۔۔ بس آپ کو اطلاع دی ہے ۔۔۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں کہ معاذ کا نام سُن کر آپ کے چہرے پر بارہ بج گئے ہیں ۔۔۔ تو میں نےاس سے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ اور بوجھل قدموں سے ان کے گھر سے باہر آ گیا ۔۔۔۔ ابھی میں نے نازیہ کی گلی کا مُوڑ ہی مڑا تھا کہ سامنے سے مجھے معاذ آتا دکھائی دیا جسے دیکھ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میری ساری ہوشیاری بھی ختم ہو گئی ۔۔۔۔ اور میں ٹھنڈا ٹھنڈا اپنے گھر کو لوٹ آیا -رات کے دس بجے تھے کہ میرے موبائیل پر گھنٹی بجی دیکھا تو وہ نازیہ کے گھر کا نمبر تھا میں نے فون آن کیا اور ہیلو کہا تو دوسری طرف نازیہ تھی ۔۔۔ بڑی خوش لگ رہی تھی وہ کافی دیر تک میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی ۔۔پھر اچانک باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے کہا کہ شاہ جی!!!! ۔۔وہ ۔۔ میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا حکم کرو سرکار۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔بات یہ کرنی تھی کہ آپ نہ ماما سے اس بات کا ہر گز زکر نہ کرنا کہ آج معاذ ہمارے گھر آیا تھا۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں ساری بات سمجھ گیا لیکن چونکہ معاذ کی وجہ سے میرا پروگرام خراب ہوا تھا اس لیئے میں نے اس سے تھوڑی ترشی سے کہا کہ تمھاری بات تو ٹھیک ہے پر کیا تم بتا سکتی ہو کہ میں معاذ والی بات آپ کی ماما سے کیوں نہ کروں ؟ بات کرتے ہوئے میرا لہجہ کافی تلخ تھا اور میرے لہجے کی تلخی کو وہ سمجھ گئی اور خوشامدانہ انداز میں بولی ۔۔۔ ڈئیر شاہ جی ۔۔۔آپ میری ماما سے معاذ والی بات اس لیئے نہیں کریں گے کہ آپ میرے بہت اچھے دوست ہیں۔۔۔اور دوسری بات۔۔۔۔۔۔ پھر دفعتاً اسے کوئی بات یاد آگئی اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولی ۔۔۔وہ شاہ جی میں نے نا آپ سے شام والے واقعہ کی معزرت بھی کرنی تھی ۔۔اصل میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور خواہ مخواہ آپ کے ساتھ بدتمیزی کر بیٹھی اور پھر بڑے ہی معزرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ امید ہے آپ نے مجھے معاف کر دیا ہو گا۔۔ تو میں نے شرارت سے اس سے کہا ۔۔نازیہ جی میں سمجھا نہیں کہ آپ مجھ سے کس بات کی معزرت کر رہیں ہیں ؟میری بات سُن کر وہ سمجھ تو گئی کہ میں ایکٹنگ کر رہا ہوں لیکن بے چاری مجبور تھی کہ اسے اپنی ماما سے منگیتر کے ملن کی بات جو چھپانی تھی اس لیئے وہ تھوڑا اٹک اٹک کر کہنے لگی ۔۔۔وہ ۔۔ جب میں واش روم سے باہر آئی تھی ۔۔۔اس کی اتنی بات سُن کر میں نے ایک قہقہہ لگایا اور اس سے بولا ۔۔۔او ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔اب میں سمجھا پھر میں نے اس سے کہا کوئی بات نہیں نازیہ جی ۔۔ ایک دفعہ دن کو آپ نے میرا سامان دیکھا تھا اور ایک دن شام کو میں نے آپ کا سامان دیکھ لیا ۔۔۔ حساب برابر ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر پتہ نہیں کہ وہ بد مزہ ہوئی کہ اسے مزہ آیا ۔۔ لیکن اس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔۔ اور میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ اوکے شاہ جی آپ سے کافی گپ شپ ہو گئی ہے۔۔۔اب مجھے اجازت دیں پھر کہنے لگی ۔۔۔ اچھا تو میں معاذ والے معاملے سے مطمئن رہوں نا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ کیوں نہیں جی آپ جم جم معاذ سے ملیں لیکن ۔۔۔۔ نازیہ جی آپ سے ایک گزارش ہے تو وہ کہنے لگی وہ کیا ؟ تو میں نے کہا کہ کبھی کبھی ۔۔۔ اس غریب پر بھی نظرِکرم کر دیا کریں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک ادا سے ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ آپ کی درخواست نوٹ کر لی گئی ہے اور فون بند کر دیا۔۔۔۔۔اس واقعہ کے بعد نازیہ کے ساتھ میرے تعلقات کچھ اور بھی گہرے ہو گئے اور وہ اکثر ہی مجھے اور میں اسے فون کرنے لگا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن میں ان کے گھر بھی جانے لگا ۔۔۔ ان کے گھر میں عموماً نازیہ اور اس کی امی ہی ہوتیں تھیں ۔۔۔ جہاں تک اسد کا تعلق ہے تو اس بے چارے کا ان لوگوں نے شیڈول ہی اس قدر ٹائیٹ بنایا ہوا تھا کہ اسے گھر میں رہنے کا ٹائم بہت کم ملتا تھا ۔۔۔۔وہ دو بجے سکول سے آتا تھا ۔۔۔ پھر روٹی شوٹی کھا کر وہ دو تین گھنٹے آرام کرتا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ ٹیوشن کے لیئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے سر ۔۔کے گھر چلا جاتا تھا اور وہاں سے وہ رات آٹھ نو بجے ہی واپس آتا تھا ۔۔۔ ادھر میں شام آفس سے چھوٹی کے بعد ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا ۔۔۔ہوتے ہوتے نازیہ کے ساتھ ساتھ اس کی ماما کے ساتھ بھی میری اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی اور اب وہ دوستی دن بدن کچھ اور آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔نازیہ کی ماما کے ساتھ نہیں بلکہ نازیہ کے ساتھ ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ گو کہ نازیہ کی ماما بھی بہت فرینڈلی تھی لیکن وہ مجھے ایک حد سے آگے نہیں جانے دیتی تھی اور نہ ہی وہ مجھے نازیہ کے ساتھ کوئی تنہائی کا موقعہ دیتی تھی ۔۔۔ لیکن پھر بھی موقعہ ملنے پر میں نازیہ کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور اسے دبا بھی دیتا تھا ۔۔۔ اور بس ۔۔۔ اس سے آگے نازیہ کی چالاک ماما نے ہمیں موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔۔ بلکل سائے کی طرح وہ نازیہ کے ساتھ رہتی تھی ۔اور نازیہ اپنی ماما سے بے حد ڈرتی تھی حلانکہ وہ بظاہر ایسی نظر نہ آتی تھیں لیکن ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے نازیہ کو خاصہ کھینچا ہوا تھا ۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے چھٹی کے بعد جاوید انکل کے گھر گیا ۔۔۔ نازیہ کی ماما یعنی کہ مسز جاوید گھر میں اکیلی تھی پوچھنے پر بتایا کہ نازیہ اپنے کسی دوست کے گھر گئی ہے ۔۔۔ وہ برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں اور میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔ خلافِ معمول آج مجھے مسزز جاوید کچھ زیادہ ہی سنجیدہ دکھائی دے رہیں تھیں میرے پوچھنے پر کہنے لگیں ۔۔۔۔ کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔ پھر سبزی چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ بیٹا آپ سے ایک بات کہوں. آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ کیونکہ میرے اندر نازیہ کےبارے میں پہلےسے چور تو موجو د تھااس لیئے آنٹی کی بات سن کر میرے اندر کھد بُد شروع ہو گئی ۔۔ ۔۔۔ کہ پتہ نہیں آنٹی کیا بات کرنے والی ہیں۔۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا ۔۔۔ جی آنٹی آپ بے دھڑک بات کریں ۔۔ میں برا نہیں مناؤں گا۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگیں ۔۔ بیٹا وہ ۔۔۔وہ ۔آپ کو پتہ ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے ؟ ان کی بات سُن کر میں حیران ہوا اور بولا جی آنٹی مجھے خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے اور شاید اگلے سال اس کی شادی بھی ہو جائے ۔۔۔ میری بات سُن کر سبزی چھیلتے چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔۔پھر تم میرا مطلب ہے نازیہ۔۔۔۔۔۔ پھر بات کہتے کہتے وہ رُک گئیں اور سر جھکا کر بولیں ۔۔۔۔ امید ہےکہ تم میری بات کا مطلب سمجھ ہی گئے ہو گے ۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میری تو ہوائیں اُڑ گئیں اور میں تیزی سے سوچنے لگا کہ اب میں ان کو کیا جواب دوں ۔۔۔ اسی دوران میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور ۔ زیادہ ٹائم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بلا سوچے سمجھے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔۔چنانچہ میں نے براہِ راست آنٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔۔۔آنٹی یقین کریں میرا نازیہ کے ساتھ کوئی چکر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ میں تو ۔۔۔۔ اور پھر میں نے جان بوجھ کر وقفہ دیا ۔۔ آنٹی جو بڑے غور سے میری باتیں سُن رہیں تھیں اس بات پر کہ۔۔۔ میرا نازیہ سے کوئی تعلق نہ ہے۔۔۔ حیرت کے مارے ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ کہنے لگیں ۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن۔۔۔۔ میں۔۔۔آئی ایم سوری ۔۔بیٹا ۔۔۔لیکن پھر۔آپ ۔ہمارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگاتے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں ۔۔۔ میں نے اپنے چہرے پر ایک گھمبیر سنجیدگی کے ساتھ ساتھ بڑا ہی رومینٹک سا موڈ بنا لیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔۔۔آنٹی اگر میں سچی بات کروں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گی نا ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ہاں ہاں تم بات کروں۔۔تمھاری بات اگر ناراض ہونے والی بات بھی ہوئی تو میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے ہر گز ناراض نہ ہوں گی ۔۔۔۔ تو میں نے ۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔شرماتے اور ۔۔ ۔۔ڈرتے ڈرتے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔آنٹی جی با ت دراصل یہ ہے کہ مجھے آ آ ۔۔۔آپ بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر آنٹی کو بہت سخت جھٹکا لگا ۔۔۔ اور ۔ وہ ۔ ہکلاتے ہوئے بولیں۔۔۔ یہ ۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا ۔۔۔۔۔ حیرت کے مارے آنٹی کی آنکھیں ڈھیلوں سے باہر نکل رہیں تھیں ۔ تم ۔تم۔۔۔ میرا خیال ہے آنٹی سے میری بات ہضم نہیں ہو ئی تھی اس لیئے ۔وہ اسی شاک کی حالت میں بولیں ۔۔۔بیٹا ۔میں تو ایک بوڑھی عورت ہوں ۔ تھی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔ آپ خود کو میری نظروں سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے نہ کہ آپ کیا ہو ۔۔۔ اس کے فوراً بعد میں نے اپنی دماغ میں مہا جھوٹ کا فولڈر اوپن کیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔ یقین کریں آنٹی ۔۔ میں آپ کی شاندار شخصیت سے بڑا متاثر ہو ں۔۔۔ آپ کی حسین آنکھوں اور آپ کے بات کرنے کے سٹائل نے مجھے تو گھائل کر دیا اور ۔۔اور آپ کا جسم ۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا آنٹی اک چہرہ غصے سے سُرخ ہو گیا اور وہ فوراً چارپائی سے اُٹھیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے جلالی لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ خبردار ۔۔۔۔ اس سے آگے اگر تم نے ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔ حرامزادے ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔۔میرا خیال تھا کہ میری یہ لگاوٹ بھری باتیں سُن کر آنٹی پگھل جائیں گی ۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا تھا اور وہ غصے میں آ کر مجھے گھر سے ہی جانے کو کہہ رہیں تھیں یہ دیکھ کر میں نے ہمت نہیں ہاری اور تیزی کے ساتھ دماغ میں جھوٹ کے فولڈر سے ایک نیا جھوٹ نکلا اور ۔۔۔پھر وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنی جوتا اُتارا ۔۔۔ اور پھر بڑے جزباتی انداز میں اس کو اپنے سر پر مارتےہوئے کہا اسی لیئے میم ۔۔۔اسی لیئے ۔۔۔ میں آپ سے یہ بات چھپا رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میری یہ حرکت کبھی بھی برداشت نہیں کریں ۔۔ پھر میں نے اپنے جزبات سے بھرپور لہجے میں اپنا جوتا آنٹی کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔آپ پلیز ۔ مجھے اس گستاخی کی سزا دیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور ان کی طرف دیکھا تو مجھے وہاں پر کشمکش کے آثار نظر آئے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرے ہاتھ سے جوتے کو نہیں پکڑا ۔۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ تم پلیز یہاں سے چلے ۔۔اپنے جانے کا سُن کر میں نے بڑی جگر پاش نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہو آنٹی۔۔۔ مجھ جیسے پاجی کو یہاں سے چلا ہی جانا چایئے ۔۔اس کے بعد میں نے جلدی سے اپنا جوتا پہنا اور ان کے گھر سے نکلنے سے پہلے میں ایک نظر ان کی طرف دیکھنا نہ بھولا ۔۔۔۔نازیہ کے ہیلو کے جواب میں میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ہائیں تم شادی پر نہیں گئیں ؟؟میرا سوال سُن کر ۔۔۔۔ پہلےتو کافی دیر تک وہ چپ رہی ۔۔۔۔میرے خیال میں وہ اس تزبزب میں تھی کہ کچھ دیر پہلے والے واقعہ کے بعد وہ مجھ سے بات کرے یا نہ کرے ۔لیکن جب کافی دیر تک میں اس سے نارمل انداز میں ہیلو ہیلو کرتا رہا اور اس پوچھا ۔۔۔ کہ کیا ہوا نازیہ ۔۔۔سو تو نہیں گئی ہو؟؟؟ ۔۔۔تو تب اس نے ایک گہرا سانس لیا اور میرا دس دفعہ کا پوچھا گیا سوال سن کر کہنے لگی جانا تھا پر نہیں گئی۔۔۔ اور امی کے ساتھ میری جگہ اسد چلا گیا ۔۔۔تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ تمھارے نہ جانے کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگی بس ایک تو کوئی خاص موڈ بھی نہ تھا دوسرا پاپا کو وقت پر دوائی دینا میری ڈیوٹی میں شامل ہے۔۔ اور شادی کا فنگشن تم کو معلوم ہی ہے کہ رات گئے تک چلتا ہے اس لیئے ہمارا خیال تھا کہ ہم پاپا کو دوائی کھلا کر چلے جائیں گے لیکن عین وقت پر پاپا کا فون آ گیا کہ وہ تھوڑا لیٹ ہو جائیں گے اس لیئے میں رہ گئی۔۔ اس کی بات سُن کر میں بڑا خوش ہوا اور اس سے کہا کہ مس جی آپ کےہاں میرا موبائیل رہ گیا تھا آپ کی اجازت سے میں وہ فون لینے آ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ ہاں یا ناں میں کوئی جواب دیتی میں نے فوراً ہی ریسور نیچے رکھ دیا ۔۔اور پھر میں آندھی طوفان کی طرح نازیہ کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ اور جا ان کا دروازہ ناک کیا ۔۔ میری ناک کے جواب میں نازیہ باہر آئی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں میرا موبائیل پکڑا ہوا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے موبائیل لیا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ کافی پریشان نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے تم کچھ پریشان سی لگ رہی ہو؟ تو وہ بات کو ٹالتے ہوئے بولی نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی ۔۔۔اور چُپ ہو گئی ۔۔اور اپنے دوپٹے کا کونہ جو کہ اس کےمنہ میں تھا ۔۔۔ اسے بار بار ۔۔ منہ سے نکلتی اور پھر ۔۔۔منہ میں ڈال لیتی واضع طور پر لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے ۔۔۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر کہہ نہ پا رہی تھی ۔۔آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ سچ بتاؤ نازیہ بات کیا ہے؟؟؟؟ تو اس نے میری طرف دیکھ کر ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ معاذ ۔۔ آنے ولا ہے۔۔۔ معاذ اس کے منگیتر کا نام تھا ۔۔اور جہاں تک میرا خیال ہے نازیہ جان بوجھ کر شادی پر نہ گئی گھی مقصد ۔۔۔ مقصد اپنے منگیتر کے ساتھ ۔۔کچھ ٹائم بتانا تھا ۔۔ لیکن عین وقت پر میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں آ گیا تھا۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ معاذ کا نام سُن کر میرے ارمانوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا تھا ۔۔۔ اور پھر میں نے بڑی مایوسی سے نازیہ کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔تو تم چاہتی ہو کہ میں یہاں سے دفعان ہو جاؤں؟ ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ پہلی دفعہ مسکرائی اور بولی میں نے تو دفعان کے الفاظ استعمال نہیں کیئے۔۔۔ بس آپ کو اطلاع دی ہے ۔۔۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں کہ معاذ کا نام سُن کر آپ کے چہرے پر بارہ بج گئے ہیں ۔۔۔ تو میں نےاس سے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ اور بوجھل قدموں سے ان کے گھر سے باہر آ گیا ۔۔۔۔ ابھی میں نے نازیہ کی گلی کا مُوڑ ہی مڑا تھا کہ سامنے سے مجھے معاذ آتا دکھائی دیا جسے دیکھ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میری ساری ہوشیاری بھی ختم ہو گئی ۔۔۔۔ اور میں ٹھنڈا ٹھنڈا اپنے گھر کو لوٹ آیا -رات کے دس بجے تھے کہ میرے موبائیل پر گھنٹی بجی دیکھا تو وہ نازیہ کے گھر کا نمبر تھا میں نے فون آن کیا اور ہیلو کہا تو دوسری طرف نازیہ تھی ۔۔۔ بڑی خوش لگ رہی تھی وہ کافی دیر تک میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی ۔۔پھر اچانک باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے کہا کہ شاہ جی!!!! ۔۔وہ ۔۔ میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا حکم کرو سرکار۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔بات یہ کرنی تھی کہ آپ نہ ماما سے اس بات کا ہر گز زکر نہ کرنا کہ آج معاذ ہمارے گھر آیا تھا۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں ساری بات سمجھ گیا لیکن چونکہ معاذ کی وجہ سے میرا پروگرام خراب ہوا تھا اس لیئے میں نے اس سے تھوڑی ترشی سے کہا کہ تمھاری بات تو ٹھیک ہے پر کیا تم بتا سکتی ہو کہ میں معاذ والی بات آپ کی ماما سے کیوں نہ کروں ؟ بات کرتے ہوئے میرا لہجہ کافی تلخ تھا اور میرے لہجے کی تلخی کو وہ سمجھ گئی اور خوشامدانہ انداز میں بولی ۔۔۔ ڈئیر شاہ جی ۔۔۔آپ میری ماما سے معاذ والی بات اس لیئے نہیں کریں گے کہ آپ میرے بہت اچھے دوست ہیں۔۔۔اور دوسری بات۔۔۔۔۔۔ پھر دفعتاً اسے کوئی بات یاد آگئی اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولی ۔۔۔وہ شاہ جی میں نے نا آپ سے شام والے واقعہ کی معزرت بھی کرنی تھی ۔۔اصل میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور خواہ مخواہ آپ کے ساتھ بدتمیزی کر بیٹھی اور پھر بڑے ہی معزرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ امید ہے آپ نے مجھے معاف کر دیا ہو گا۔۔ تو میں نے شرارت سے اس سے کہا ۔۔نازیہ جی میں سمجھا نہیں کہ آپ مجھ سے کس بات کی معزرت کر رہیں ہیں ؟میری بات سُن کر وہ سمجھ تو گئی کہ میں ایکٹنگ کر رہا ہوں لیکن بے چاری مجبور تھی کہ اسے اپنی ماما سے منگیتر کے ملن کی بات جو چھپانی تھی اس لیئے وہ تھوڑا اٹک اٹک کر کہنے لگی ۔۔۔وہ ۔۔ جب میں واش روم سے باہر آئی تھی ۔۔۔اس کی اتنی بات سُن کر میں نے ایک قہقہہ لگایا اور اس سے بولا ۔۔۔او ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔اب میں سمجھا پھر میں نے اس سے کہا کوئی بات نہیں نازیہ جی ۔۔ ایک دفعہ دن کو آپ نے میرا سامان دیکھا تھا اور ایک دن شام کو میں نے آپ کا سامان دیکھ لیا ۔۔۔ حساب برابر ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر پتہ نہیں کہ وہ بد مزہ ہوئی کہ اسے مزہ آیا ۔۔ لیکن اس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔۔ اور میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ اوکے شاہ جی آپ سے کافی گپ شپ ہو گئی ہے۔۔۔اب مجھے اجازت دیں پھر کہنے لگی ۔۔۔ اچھا تو میں معاذ والے معاملے سے مطمئن رہوں نا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ کیوں نہیں جی آپ جم جم معاذ سے ملیں لیکن ۔۔۔۔ نازیہ جی آپ سے ایک گزارش ہے تو وہ کہنے لگی وہ کیا ؟ تو میں نے کہا کہ کبھی کبھی ۔۔۔ اس غریب پر بھی نظرِکرم کر دیا کریں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک ادا سے ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ آپ کی درخواست نوٹ کر لی گئی ہے اور فون بند کر دیا۔۔۔۔۔اس واقعہ کے بعد نازیہ کے ساتھ میرے تعلقات کچھ اور بھی گہرے ہو گئے اور وہ اکثر ہی مجھے اور میں اسے فون کرنے لگا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن میں ان کے گھر بھی جانے لگا ۔۔۔ ان کے گھر میں عموماً نازیہ اور اس کی امی ہی ہوتیں تھیں ۔۔۔ جہاں تک اسد کا تعلق ہے تو اس بے چارے کا ان لوگوں نے شیڈول ہی اس قدر ٹائیٹ بنایا ہوا تھا کہ اسے گھر میں رہنے کا ٹائم بہت کم ملتا تھا ۔۔۔۔وہ دو بجے سکول سے آتا تھا ۔۔۔ پھر روٹی شوٹی کھا کر وہ دو تین گھنٹے آرام کرتا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ ٹیوشن کے لیئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے سر ۔۔کے گھر چلا جاتا تھا اور وہاں سے وہ رات آٹھ نو بجے ہی واپس آتا تھا ۔۔۔ ادھر میں شام آفس سے چھوٹی کے بعد ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا ۔۔۔ہوتے ہوتے نازیہ کے ساتھ ساتھ اس کی ماما کے ساتھ بھی میری اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی اور اب وہ دوستی دن بدن کچھ اور آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔نازیہ کی ماما کے ساتھ نہیں بلکہ نازیہ کے ساتھ ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ گو کہ نازیہ کی ماما بھی بہت فرینڈلی تھی لیکن وہ مجھے ایک حد سے آگے نہیں جانے دیتی تھی اور نہ ہی وہ مجھے نازیہ کے ساتھ کوئی تنہائی کا موقعہ دیتی تھی ۔۔۔ لیکن پھر بھی موقعہ ملنے پر میں نازیہ کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور اسے دبا بھی دیتا تھا ۔۔۔ اور بس ۔۔۔ اس سے آگے نازیہ کی چالاک ماما نے ہمیں موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔۔ بلکل سائے کی طرح وہ نازیہ کے ساتھ رہتی تھی ۔اور نازیہ اپنی ماما سے بے حد ڈرتی تھی حلانکہ وہ بظاہر ایسی نظر نہ آتی تھیں لیکن ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے نازیہ کو خاصہ کھینچا ہوا تھا ۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے چھٹی کے بعد جاوید انکل کے گھر گیا ۔۔۔ نازیہ کی ماما یعنی کہ مسز جاوید گھر میں اکیلی تھی پوچھنے پر بتایا کہ نازیہ اپنے کسی دوست کے گھر گئی ہے ۔۔۔ وہ برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں اور میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔ خلافِ معمول آج مجھے مسزز جاوید کچھ زیادہ ہی سنجیدہ دکھائی دے رہیں تھیں میرے پوچھنے پر کہنے لگیں ۔۔۔۔ کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔ پھر سبزی چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ بیٹا آپ سے ایک بات کہوں. آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ کیونکہ میرے اندر نازیہ کےبارے میں پہلےسے چور تو موجو د تھااس لیئے آنٹی کی بات سن کر میرے اندر کھد بُد شروع ہو گئی ۔۔ ۔۔۔ کہ پتہ نہیں آنٹی کیا بات کرنے والی ہیں۔۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا ۔۔۔ جی آنٹی آپ بے دھڑک بات کریں ۔۔ میں برا نہیں مناؤں گا۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگیں ۔۔ بیٹا وہ ۔۔۔وہ ۔آپ کو پتہ ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے ؟ ان کی بات سُن کر میں حیران ہوا اور بولا جی آنٹی مجھے خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے اور شاید اگلے سال اس کی شادی بھی ہو جائے ۔۔۔ میری بات سُن کر سبزی چھیلتے چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔۔پھر تم میرا مطلب ہے نازیہ۔۔۔۔۔۔ پھر بات کہتے کہتے وہ رُک گئیں اور سر جھکا کر بولیں ۔۔۔۔ امید ہےکہ تم میری بات کا مطلب سمجھ ہی گئے ہو گے ۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میری تو ہوائیں اُڑ گئیں اور میں تیزی سے سوچنے لگا کہ اب میں ان کو کیا جواب دوں ۔۔۔ اسی دوران میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور ۔ زیادہ ٹائم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بلا سوچے سمجھے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔۔چنانچہ میں نے براہِ راست آنٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔۔۔آنٹی یقین کریں میرا نازیہ کے ساتھ کوئی چکر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ میں تو ۔۔۔۔ اور پھر میں نے جان بوجھ کر وقفہ دیا ۔۔ آنٹی جو بڑے غور سے میری باتیں سُن رہیں تھیں اس بات پر کہ۔۔۔ میرا نازیہ سے کوئی تعلق نہ ہے۔۔۔ حیرت کے مارے ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ کہنے لگیں ۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن۔۔۔۔ میں۔۔۔آئی ایم سوری ۔۔بیٹا ۔۔۔لیکن پھر۔آپ ۔ہمارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگاتے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں ۔۔۔ میں نے اپنے چہرے پر ایک گھمبیر سنجیدگی کے ساتھ ساتھ بڑا ہی رومینٹک سا موڈ بنا لیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔۔۔آنٹی اگر میں سچی بات کروں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گی نا ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ہاں ہاں تم بات کروں۔۔تمھاری بات اگر ناراض ہونے والی بات بھی ہوئی تو میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے ہر گز ناراض نہ ہوں گی ۔۔۔۔ تو میں نے ۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔شرماتے اور ۔۔ ۔۔ڈرتے ڈرتے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔آنٹی جی با ت دراصل یہ ہے کہ مجھے آ آ ۔۔۔آپ بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر آنٹی کو بہت سخت جھٹکا لگا ۔۔۔ اور ۔ وہ ۔ ہکلاتے ہوئے بولیں۔۔۔ یہ ۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا ۔۔۔۔۔ حیرت کے مارے آنٹی کی آنکھیں ڈھیلوں سے باہر نکل رہیں تھیں ۔ تم ۔تم۔۔۔ میرا خیال ہے آنٹی سے میری بات ہضم نہیں ہو ئی تھی اس لیئے ۔وہ اسی شاک کی حالت میں بولیں ۔۔۔بیٹا ۔میں تو ایک بوڑھی عورت ہوں ۔ تھی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔ آپ خود کو میری نظروں سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے نہ کہ آپ کیا ہو ۔۔۔ اس کے فوراً بعد میں نے اپنی دماغ میں مہا جھوٹ کا فولڈر اوپن کیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔ یقین کریں آنٹی ۔۔ میں آپ کی شاندار شخصیت سے بڑا متاثر ہو ں۔۔۔ آپ کی حسین آنکھوں اور آپ کے بات کرنے کے سٹائل نے مجھے تو گھائل کر دیا اور ۔۔اور آپ کا جسم ۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا آنٹی اک چہرہ غصے سے سُرخ ہو گیا اور وہ فوراً چارپائی سے اُٹھیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے جلالی لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ خبردار ۔۔۔۔ اس سے آگے اگر تم نے ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔ حرامزادے ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔۔میرا خیال تھا کہ میری یہ لگاوٹ بھری باتیں سُن کر آنٹی پگھل جائیں گی ۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا تھا اور وہ غصے میں آ کر مجھے گھر سے ہی جانے کو کہہ رہیں تھیں یہ دیکھ کر میں نے ہمت نہیں ہاری اور تیزی کے ساتھ دماغ میں جھوٹ کے فولڈر سے ایک نیا جھوٹ نکلا اور ۔۔۔پھر وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنی جوتا اُتارا ۔۔۔ اور پھر بڑے جزباتی انداز میں اس کو اپنے سر پر مارتےہوئے کہا اسی لیئے میم ۔۔۔اسی لیئے ۔۔۔ میں آپ سے یہ بات چھپا رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میری یہ حرکت کبھی بھی برداشت نہیں کریں ۔۔ پھر میں نے اپنے جزبات سے بھرپور لہجے میں اپنا جوتا آنٹی کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔آپ پلیز ۔ مجھے اس گستاخی کی سزا دیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور ان کی طرف دیکھا تو مجھے وہاں پر کشمکش کے آثار نظر آئے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرے ہاتھ سے جوتے کو نہیں پکڑا ۔۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ تم پلیز یہاں سے چلے ۔۔اپنے جانے کا سُن کر میں نے بڑی جگر پاش نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہو آنٹی۔۔۔ مجھ جیسے پاجی کو یہاں سے چلا ہی جانا چایئے ۔۔اس کے بعد میں نے جلدی سے اپنا جوتا پہنا اور ان کے گھر سے نکلنے سے پہلے میں ایک نظر ان کی طرف دیکھنا نہ بھولا اس کے بعد میں کافی دنوں تک آنٹی کے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔اور اتفاق سے نہ ہی میرا آنٹی سے کوئی آمنا سامنا ہوا کہ میں اپنی ایکٹنگ کا رزلٹ دیکھ لیتا ۔میرے ان کے گھر نہ جانے سے گاہے نازیہ پوچھتی بھی رہی لیکن میں نے دفتر کی مصروفیت کا بہانہ بنا لیا لیکن اس کے ساتھ گپ شپ ویسے ہی چلتی رہی ۔۔۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے گھر آیا تو دیکھا تو آنٹی امی کے پاس بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں ۔۔ میں نے آنٹی کو دیکھ کر دور سے سلام کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو انہوں نے مجھے آواز دیکر بلایا اور بولیں ۔۔۔ کہاں جا رہے ہو ؟ ادھر تو آؤ ۔۔۔ اور میں بڑی مسکین سی شکل بنا کر آنٹی کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بات ہے ہم سے کوئی خفگی ہے ؟ جو تم نےکافی دنوں سے ہمارے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میرے دل میں منوں لڈو پھوٹ گئے کہ وہ مارا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے ان پر یہ بات ظاہر نہ ہونے دی اور بڑی آہستگی کے ساتھ ان سے کہا ۔۔۔ وہ جی میں آپ سے ڈر گیا تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے تیوری چڑھائی اور بڑی مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔ میں کوئ چڑیل ہوں جو تم مجھ سے ڈر گئے تھے؟ یہ سُن کرمیں نے ان سے کہا کہ تو پھر میں کل سے آپ کے گھر آجایا کروں؟ میر ی بات سن کر وہ کہنے لگیں کل سے کیوں بھائی تم آج سے ہی میرے ساتھ چلو۔۔۔ نازیہ بھی تم کو بہت یاد کر رہی تھی ۔۔۔میں تو ان سے مایوس ہو گیا تھا لیکن آنٹی کے رویے لگ رہا تھا کہ میرا تیر نشانے پر بیٹھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی میں نے آنٹی کی طرف سے محتاط ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔چنانچہ اب جب بھی میں ان کے گھر جاتا تو میں آنٹی کو سپیشل ٹریٹمنٹ دیتا لیکن اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ نازیہ کو میرے اس نئے عشق کی بھنک بھی نہ پڑے ۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول میں آنٹی کے گھر گیا تو نازیہ نے دروازہ کھولا اور پوچھنے پر بتلایا کہ ماما نہا رہی ہیں ۔۔۔۔اتنے دنوں میں میرا یہ پہلا موقعہ تھا کہ مجھے نازیہ کے ساتھ تنہائی کا موقعہ ملا تھا ۔۔چنانچہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو سہلاتے ہو بولا ۔۔۔وہ نازیہ جی میں نے آپ سے ایک درخواست کی تھی ؟ تو وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔۔ کون سی درخواست جی ۔۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں اور ساتھ ہی مسکرا دی۔۔۔اس کا مسکرانہ تھا کہ میں نے اس کو کھیچ کر اپنے گلے سے لگا لیا اور اس کے گال چوم کر بولا ۔۔۔یہ والی درخواست۔۔۔ جیسے ہی میں نے نازیہ کو گلے سے لگایا ۔۔وہ ایک دم پیچھے ہٹی لیکن اس دوران میں اس کے گال چوم چکا تھا۔۔۔ پیچھے ہٹتے ہی وہ بڑی خوف زدہ آواز میں بولی ۔۔۔۔ تم مرواؤ گے۔۔۔ اگر اوپر سے ماما آ جاتی ۔۔۔ تو نہ تم نے بچنا تھا نہ میں نے ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات سن کر اس سے کہا جار ب جی بات یہ ہے کہ میں تو بس آپ کو یاد دلا رہا تھا کہ ۔۔۔ اتنے میں واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی اور نازیہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا ۔۔ موقعہ اچھا دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ کہ میں دوبارہ یاد کرواؤں؟ میری بات سن کر اس نے ایک نظر آنٹی کے کمرے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ ہاں ہاں یاد آ گیا اور بھاگ گئی۔۔۔ اور میں بڑی شرافت سے چلتا ہوا ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد آنٹی کمرے میں داخل ہوئی اور ان کو دیکھ میں کھڑا ہو گیا اور یک ٹک ان کو دیکھنے لگا ۔۔۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی۔۔۔ یہ۔۔تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ آنٹی اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں ایک بات کہوں تو وہ کہنے لگی بولو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔اس سوٹ میں آپ اپسرا لگ رہیں ہیں ۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔ باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر بولیں۔۔ کب آئے تو میں نے کہا بس آیا ہی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر کمرے کے باہردیکھا اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔۔ نازیہ اندر آ رہی ہے ۔۔۔تم پلیز اپنی نظروں پر کنٹرول کرو۔۔ تو میں نے ان کو دیکھتے ہوئے رومینٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ میں آپ کو نہیں دیکھ رہا ۔۔ بلکہ میری نظریں خود بخود آپ کے حسین سراپے کا طواف کر رہیں ہیں۔۔ ۔۔اتنی دیر میں نازیہ اندر داخل ہو چکی تھی ۔۔۔ اسے ۔۔۔ دیکھ کر وہ ہولے سے بولیں ۔۔ پلیز اپنی نظریں دوسری طرف کر لو۔۔۔

Post a Comment

0 Comments